مشرقی پنجاب کی پولیس کے جوان مستعدی سے ہماری حفاظت پہ مامور، ہم پہ کڑی نظر رکھے ہوئے تھے۔ ایک اے ایس آئی، سردار امر سنگھ چیمہ سے ہم نے پوچھا ’’سردار جی! تُسی وی جٹ، تے اسی وی جٹ، چیمے جٹ ساڈی طرف وی بہت نیں، میرا کلاس فیلو عبید چیمہ اپنے چیمہ ہون تے بہت مان کردا سی۔‘‘(سردار جی، آپ بھی جٹ اور ہم بھی جٹ،ہماری طرف بھی کافی چیمے جٹ ہیں، میرا ایک کلاس فیلو، عبید چیمہ اپنے چیمہ ہونے پر بہت مان کرتا ہے)۔
’’تُسی کہیڑے جٹ او؟‘‘( آپ کون سے جٹ ہیں؟)’’اسی رانجھا جٹ۔‘‘(ہم رانجھا جٹ ہیں)’’واہ رانجھا جی، تے ہیر کِتھے وے تہاڈی؟‘‘ (واہ رانجھا جی، ہیر کہاں ہے آپ کی؟) سردار امر سنگھ چیمہ کی داڑھی، مونچھوں میں سے ہلکی سے مسکراہٹ خودبخود نکل آئی۔’’تہاڈا تعلق کس شہر توں اے؟‘‘(آپ کا تعلق کس شہر سے ہے؟)چیمہ صاحب نے مُسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’اسی تےلہور دے آں۔‘‘(ہم لاہور سے ہیں)’’نہ جی نہ، تُسی لہور دے نئیں۔ ایس گل دا بے شک میرے کولوں اشٹام لکھا لو۔‘‘(نہیں جی نہیں، آپ لاہور کے نہیں ہیں،بے شک یہ بات مجھ سے اسٹامپ پیپر پہ لکھوالیں) امر سنگھ کے چہرے پہ گہرے یقین کی پرچھائیاں تھیں اور اُس کی یہ بات سُن کر ہم خود تھوڑا گڑبڑا سے گئے۔’’لہور دے تاں اَسی ہاں۔
اَسی ہاں، پکے ٹُھکے لہوریے۔‘‘(لاہور کے تو ہم ہیں، ہم ہیں پکّے لاہوریے)۔ سردار جی نے گویا بات ہی ختم کردی۔ ویسے ایک بات تو تھی کہ امر سنگھ کی مُسکراہٹ اور یقین نے ہمیں حیرانی میں مبتلا کر دیاتھا کہ بھارتی پنجاب پولیس کا ایک سکھ سردار ہمیں کہہ رہا ہے کہ ’’تم پکّے لاہوری نہیں ہو۔‘‘ ’’سردار جی،تُسی کس طرح لہور دے،تے اَسی لہور دے نئیں،اِس گل تے ذرا چانن پاؤ۔‘‘(سردار جی، آپ لاہور کے کیسے اور ہم لاہور کے کیوں نہیں؟ذرا اس بات پہ روشنی ڈالیں)ہم نے کہا۔’’تہاڈی بولی لہور دی نئیں۔
جیہڑی بولی مَیں بول رئیاں واں، ایہہ لہور دی اصلی بولی اے۔ تقسیم تُوں پہلاں اسی قلع گجر سنگھ وچ رہندے سی، تے جدوں مُلک دی ونڈ ہوئی،کھیم کرن وِچ جا کے بسیرا کیتا۔ ساڈے بزرگاں نے لہور دی بولی نوں سینے نال لا کے رکھیا، تےسانوں وی او بولی سکھائی۔ اَج وی میرے پتا جی لہور نوں یاد کردے تاں روندے نیں۔ اُنہاں دی اکھاں دا چانن چلا گیا، پر اُنہاں دی اکھاں اِچوں لہور دی یاداں نئیں گئیاں، جدوں وی لہور دا ذکر ہوندا اے، اُنہاں دی اکھاں ساون دی طرح برسدیاں نیں۔ جدوں میں اُنہاں دے نال ذکر کیتا کہ لہور تو مہمان آرئے نئیں، تے میری ڈیوٹی اُنہاں دی سیکیوریٹی تے لگی اے، تاں او آن دی بہت ضد کر رہے سی،پر ایتھے سویلین نوں آن دی اجازت نیں۔ ایس لیے اُنہاں نوں روندا چھڈ آیا ہاں‘‘(آپ کی بولی لاہور کی بولی نہیں ہے، جو بولی میں بول رہا ہوں، یہ لاہور کی اصل بولی ہے۔
تقسیم سے پہلے ہم قلع گجر سنگھ میں رہتے تھے، پھر ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہم کھیم کرن میں جا بسے، لیکن ہمارے بزرگوں نے لاہور کی بولی سینے سے لگائے رکھی اور یہ بولی ہمیں بھی سکھائی۔آج بھی میرے والد لاہور کو یاد کرکے روتے ہیں، اُن کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے، لیکن ان کی آنکھوں سے لاہور کی یادیں محو نہیں ہو سکیں۔ جب بھی لاہور کا ذکر ہوتا ہے، تو ان کی آنکھیں ساون کی طرح برستی ہیں۔
جب مَیں نے انہیں بتایا کہ لاہور سے مہمان آرہے ہیں اور میری ڈیوٹی ان کی سیکوریٹی پہ لگی ہے، تو وہ ساتھ آنے کی بہت ضد کرنے لگے، مگر سویلینز کو آپ لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں،تو مَیں اُنہیں روتا ہوا چھوڑ آیا ہوں۔) یہ بتاتے ہوئے سردار امر سنگھ کی آنکھوں میں بھی آنسو تیر رہے تھے اور ہماری بھی۔’’واقعی، آپ نے صحیح پہچانا،جو بولی ہم بول رہے ہیں،وہ خالص لاہوری نہیں،دراصل ہمارا تعلق سرگودھا سے ہے، مگر پچھلے بیس سال سے لاہور ہی میں رہ رہے ہیں۔ ہماراگاؤں بھابڑہ ہے، جو رانجھے کے گاؤں تخت ہزارہ کے بالکل قریب ہے۔‘‘ہم نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
سردار جی کی سوچوں کی گاڑی جس پٹری پہ چڑھ چُکی تھی، اس پر ابھی سُرخ جھنڈی نہیں آئی تھی۔دُور خلاؤں میں گھورتے ہوئے انہوں نے سلسلۂ کلام دوبارہ شروع کیا، ’’بس ایک ہی خواہش ہے کہ ایک مرتبہ لاہور دیکھ لوں کہ جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔‘‘وہ لاہور، جہاں میری کئی نسلیں پروان چڑھیں، جس شہر سے ہمارے خاندان کی صدیوں پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ ایک بار، بس ایک بار اگر یہ آنکھیں لاہور کی ایک جھلک دیکھ لیں، تو میری آتما (روح) کو چین، بے قرار دل کو قرار مل جائے۔‘‘سردار جی نے ملتجی انداز میں کہا۔ ’’سردار جی، یہ بتائیں گولڈن ٹیمپل یہاں سے کتنی دُور ہے؟‘‘ہم نے پوچھا۔’’اسٹیشن کے بالکل باہر سے گولڈن ٹیمپل کے لیے بس ملتی ہے، یہاں سے بمشکل پانچ منٹ کا سفر ہے۔‘‘سردار جی نے جواب دیا۔ ’’دراصل ہماری بڑی خواہش ہے کہ گولڈن ٹیمپل دیکھیں،مگر مجبوری ہے کہ نہیں جا سکتے۔
یاد رہے، گولڈن ٹیمپل، سکھوں کے متبرّک ترین مقامات میں سے ایک ہے، جسے ’’ہر مندر صاحب‘‘ بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے، ہر مذہب کا مندر، کسی بھی مذہب اور عقیدے کا آدمی اس مذہبی مقام پہ جاسکتا ہے۔اُس کے دروازے ہر مذہب کے لیے کُھلے ہیں۔ اکال تخت بھی گولڈن ٹیمپل کے اندر واقع ہے۔‘‘ہم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
گولڈن ٹیمپل کے چار داخلی دروازے، چاروں مذاہب کے پیروکاروں (ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی)کے لیے ہر وقت کُھلے رہتے ہیں۔گُردوارہ گرو ارجن دیو نے تعمیر کیا تھا۔ سکھوں کے چوتھے گُرو، گُرو رام داس نے اس گُردوارے کی زمین حاصل کی تھی۔ تیسرے سکھ گرو امر داس نے انہیں یہاں گُردوارہ آباد کرنے اور ایک تالاب بنانے کا حکم دیا تھا، یہ وہی تالاب ہے، جو گولڈن ٹیمپل میں اب بھی موجود ہے۔’’سردار جی، جلیاں والہ باغ بھی قریب ہی ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ’’جی، گولڈن ٹیمپل کے بالکل قریب ہے۔‘‘ سردار جی نے جواب دیا۔ امرتسر کے ساتھ ہمیشہ دو نام نتھی ہو کے ہمارے دماغ میں آتے تھے۔ یہ دو نام افسانہ ’’تماشا‘‘ اور’’سعادت حسن منٹو‘‘ تھے۔
ہمارے میٹرک کے نصاب میں یہ افسانہ شامل تھا اور اسی افسانے نے ہمیں جلیاں والا باغ اور امرتسر سے متعارف کروایا تھا۔ ہم، جو آزادی سے امرتسر گھومنا پھرنا چاہتے تھے، تو اس کی دو بڑی وجوہ جلیاں والا باغ اور گولڈن ٹیمپل تھیں۔ جلیاں والا باغ،نہتّے لوگوں کی برطانوی جبروستم اور بےپناہ استعماری طاقت کے آگے ڈَٹ جانے کی عظیم الشّان اور بے مثال یادگار ہے، جہاں برّصغیر پاک وہند کے جرّی عوام کی بہادری اور انگریز سرکار کے جبر کی داستان رقم ہوئی۔ اور گولڈن ٹیمپل دیکھنے کی خواہش اس لیے تھی کہ وہ سکھ مذہب کا سب سے مقدّس مقام ہے اور کئی روایات کے مطابق اس کی زمین اکبر بادشاہ نے گرو رام داس کو گردوارے کے لیے عطیہ کی تھی۔ افسوس کے امرتسر تو دیکھ لیا، مگر ان دو مقامات، دیکھنے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔ امرتسر جنکشن کی عمارت آہستہ آہستہ پیچھے جاتی جا رہی تھی۔
ٹرین کے انجن کا ہارن بجا تو رات کے سنّاٹے میں دارڑیں پڑ گئیں اور خاکی وردیوں میں ملبوس مشرقی پنجاب کی پولیس کے سکھ سپاہی پلیٹ فارم ہی پر رہ گئے۔ امرتسر شہر کی جھلملاتی روشنیاں ہمیں الوداع کہہ رہی تھیں، یہ سعادت حسن منٹو کا شہر تھا ،یہ عطاء اللہ شاہ بخاری کا وطن تھا۔ اس شہر کی گلیوں میں اے حمید جیسے فسوں کار لکھاری کا بچپن اور لڑکپن گزرا تھا۔ غلام عباس جیسا انوکھا اور بے مثل کہانی کار اس شہر کے گلی کُوچوں میں پَلا بڑھا۔
اسی امرتسر کالج میں کبھی طالبانِ علم و فن،فیض احمد فیض سےفیض یاب ہوتے تھے۔یہ سر زمین کبھی ہماری اپنی تھی، جہاں ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے اقتدار میں نوبتیں اور نقّارے بجتے رہے، آج اُسی مُلک میں ہم ایک اجنبی کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ اجنبی مسافروں کا قافلہ، جن کے ساتھ کئی وہم، وسوسے بھی دلوں کے نہاں خانوں میں محوِ سفر تھے۔ واہگہ بارڈر کراس کرتے ہوئے ہم نے مُڑ کر ’’بابِ آزادی‘‘ کو ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے آخری بار دیکھ رہے ہوں۔
ٹرین میں بیٹھتے ہی ہمیں چچا ہرنام سنگھ کی بس کی گرمی یاد آگئی۔ ہمارا خیال تھا کہ جب بس کا ایسا حال تھا، تو ٹرین تو جانے کس حال میں ہوگی، لیکن ہماری توقع کے بر عکس ٹرین کا ڈبّا کافی اچھی حالت میں تھا۔ ائیر کنڈیشنر بھی بہت صحیح کام کر رہا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں سردی لگنا شروع ہوگئی۔رات کے سنّاٹے میں صُور پھونکتا ٹرین کا انجن کھٹا کھٹ چلا جا رہا تھا۔ہم پچھلی رات بھی تسلی سے سو نہیں سکے تھے۔ اب جب بستر پر لیٹے تو سفر کے خیالات اور خدشات نے آگھیرا۔ سارے دن کی بھاگ دوڑ سے بدن تھکن کے مارے ٹوٹ رہا تھا، لیکن مختلف خیالات ہی کی بھول بھلّیوں میں کہیں سے نیند کی دیوی نے آجکڑا۔
امرتسر سے چلنے کے بعد پہلا اسٹیشن بیاس شہر تھا۔ ٹرین رات کی تاریکی میں دریائے بیاس کے آہنی پل سے گزری، تو چاند کی چودھویں تاریخ تھی۔ نُور کی کرنیں دریائے بیاس کے پانیوں کو اجال رہی تھیں۔ دریا بھی لبا لب بھرا ہوا تھا اور ماہِ شبِ چار دہم کی روپہلی کرنیں دریا کے پانیوں سے اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔ سوتے جاگتے میں ہماری نظر ان پانیوں پر پڑی، تو نیند کا پنچھی ایک دَم ہی آنکھوں کےجزیرے سے اُڑان بھر گیا۔ دل نے حسرت بَھری آنکھوں سے ان نقرئی پانیوں کو دیکھا، تو اُداسی دل کی گہرائیوں میں اُترتی چلی گئی۔
کچھ ہی دن پہلے ہم عید کی چھٹیوں کے بعد جب گاؤں سے واپس لاہور آرہے تھے، تو چناب اور راوی کے پُل سے گزرتے ہوئے اُن دریاؤں میں ریت اُڑتے دیکھی تھی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ریت کے بگولے اور پھر جھکڑکی شکل اختیار کرلی۔ریت کے اُن بگولوں کے پیچھے بیاس کے وہ نقرئی پانی چُھپتے چلے گئے اور پتا نہیں کہاں سے آنکھوں میں نمی سی اُتر آئی۔ نیند کی آنکھ مچولی میں کچھ اسٹیشن آئے اور گزر گئے۔ ٹرین امرتسر سے چل کے بیاس جنکشن پہ آرُکی۔پھر جب آنکھ کُھلی،تو جالندھر اسٹیشن آچُکا تھا۔
جی، پاکستان کے قومی ترانے کے خالق، حفیظ جالندھری، سابق صدر، آرمی چیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، جنرل ضیا الحق اور صاحبِ طرز شاعر، منفرد سفر نامہ نگار، انشاء پرداز و مزاح نگار، ابنِ انشا کا شہر جالندھر۔ پھگواڑہ اور فیلور اسٹیشن گزرے، پھر لدھیانہ اسٹیشن آیا،جہاں ٹرین کچھ دیر رُکی۔ لدھیانہ، 1480 عیسوی میں بادشاہ سکندر لودھی کے زمانے میں آباد ہوا۔اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے سکندر لودھی نے اپنا جرنیل نہند خان بھیجا تھا، جس نے چھوٹے سے گاؤں، میر ہوتا کے مقام پر لدھیانہ آباد کیا۔
سکندر لودھی کے زمانے کا’’لودھی قلعہ‘‘ اب تک اس زمانے کی یادگار کے طور پر موجود ہے، اس قلعے کو بعد میں مہاراجا رنجیت سنگھ اور انگریز سرکار کے دَور میں بھی خاصی اہمیت حاصل رہی۔ لدھیانہ، مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا شہر بھی ہے، جنہوں نے ’’تاج محل‘‘ اور ’’ثناخوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں‘‘ جیسی یادگار نظمیں لکھیں۔ ساحر لدھیانوی کچھ عرصہ لاہور میں بھی رہے اور ’’ادبِ لطیف‘‘ جیسے مشہور ادبی جریدے کی ادارت بھی کی، پھر اُنہیں بمبئی فلم نگری کی چکاچوند نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ بعدازاں،انہوں نے بھارتی فلموں کے لیے کئی یادگار گیت لکھے۔
آبادی کے لحاظ سے لدھیانہ مشرقی پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ایک بڑا صنعتی مرکز بھی ہے، اسی لیے اسے مشرقی پنجاب کا ’’مانچسٹر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ٹرین کچھ دیر تک لدھیانہ اسٹیشن ہی پر رُکی رہی اور ہم لدھیانہ کے اس اسٹیشن کو دیکھتے رہے، جہاں سے ہجرت کرکے ہمارے چھٹی جماعت کے اردو کے استاد نثار احمد لدھیانوی، سرگودھا کے قصبے، بھابڑہ میں آن بسے تھے۔ وہ خود تو بھابڑہ آگئے، مگر ان کی روح کہیں اُسی شہر میں رہ گئی تھی۔ اکثر لدھیانہ میں بیتے دنوں کی یادیں تازہ کرتے اُن کی آنکھیں نم اور لہجہ گلوگیر ہوجاتا۔
انبالہ اور لدھیانہ کے درمیان ریل گاڑی نے سرہند اسٹیشن پہ بھی قیام کیا۔ سرہند کے مقام پہ نقشبندیہ سلسلے کے صوفی بزرگ حضرت مجدّد الف ثانی کا مزار ہے اور مرجّعِ خاص و عام ہے۔ پَو پَھٹ رہی تھی، جب ایک اسٹیشن پہ کافی دیر کے لیے ٹرین رُکی رہی۔ اسٹیشن کے اردگرد گھروں پہ پھیلی سیاہی پہ صبح کی سفیدی آہستہ آہستہ غلبہ پا رہی تھی۔ ہم نے آنکھیں ملتے ہوئے بوگی سے باہر دیکھا۔ سامنے چائے کے کھوکھے سے دھویں کے مرغولے اٹھ رہے تھے، تو ایک طرف پیلے رنگ کا لکڑی کا ایک بورڈ لگا تھا، جس پر سیاہ رنگ سے ’’انبالہ جنکشن‘‘ لکھا تھا۔
ہم اُٹھ کے ٹرین کے دروازے تک گئے اور وہیں کھڑے ہو گئے اور حسرت سے دُور جنکشن کی عمارت سے پَرے اس شہرکے مکانوں کے ہیولوں کی طرف دیکھا۔ بائیس برس پہلے لالا جی سِری رام مہتا کا آخری خط ہمارے نام یہیں اسی شہر سے لکھا گیا تھا۔ اب پتا نہیں، لالا جی زندہ بھی ہوں گے یا نہیں کہ ان کے بچّوں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اگر کچھ وقت پس انداز ہوسکتا، تو ہم اس شہر کی گلیوں میں اپنے پُرکھوں کی رفاقت کے نقوش تلاش کرنے کی کوشش ضرور کرتے۔
اسی شہر کی گلیوں، بازاروں میں لالا جی وہ خط(جو ہم نے 1999 ء کے اکتوبر میں تایا جی،چوہدری نور حُسین کے نام اُن کے ایک بوسیدہ خط کے لفافے سے اُن کا پتا نقل کر کے لکھا تھا) لیے پھرتے تھے،جب وہ خط انہیں موصول ہوا تھا، تو ایک ایک بندے کو پکڑ پکڑ کے سُناتے اور کہتے پھرتے ’’دیکھو، پچاس سال سے اوپر گزر گئے، مگر میرے جگری یار غلام رسول نمبردار کے پوتے نے اس کے مرنے کے بعد بھی مجھے یاد رکھا ہوا ہے۔یہ دیکھو، اس خط کے ایک ایک لفظ سے پیار اور محبّت کی خُوش بُو آرہی ہے‘‘ اپنی اس کیفیت کا یہ سب احوال ہمارے نام خط میں لالا جی نے لکھ بھیجا تھا۔
سورج خوابِ غفلت سے بیدار ہو کے انگڑائیاں لے رہا تھا۔ پاس ہی دروازے میں کھڑے ٹرین کے ائیرکنڈیشننگ سسٹم کے الیکٹریشن وکرم سے ہم نے پوچھا ’’ماڈل کالونی قریب ہی ہے؟‘‘(لالہ جی کا گھر ماڈل کالونی میں تھا۔)اس نے بتایا کہ ’’ماڈل کالونی اسٹیشن کے بالکل پاس ہی ہے،لیکن افسوس کہ ہم وہاں جا نہیں سکتے تھے۔ اس وقت احساس ہوا کہ ’’قید، قید ہی ہوتی ہے، خواہ حفاظت کے لیے ہی ہو‘‘۔آج سے کئی برس قبل بھارت کی سرزمین پر سمجھوتا ایکسپریس نذرِ آتش کردی گئی تھی، جس کی سوختہ بوگیوں کی تصویریں آج بھی دماغ کے دریچوں سے جھانکتی ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان پون صدی میں دشمنی کی جڑیں اتنی گہری ہوچُکی ہیں کہ اب انہیں اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہی نظر آتا ہے، جب کہ اس دشمنی کے بھیانک نتائج دونوں اطراف کے غریب عوام بھگتتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ہم ملائشیا گئے تھے، تو وہاں کے گائیڈ نے کہا تھا کہ’’ہم جب بھی بھارت، پاکستان کے بارے میں سُنتے ہیں، تو ان کی آپس کی لڑائی کی خبریں ہی سنائی دیتی ہیں،آپ لوگ لڑ لڑ کر تھکے نہیں؟ ہمارا سنگا پور کے ساتھ سرحدی تنازع ہے، لیکن ہم مل بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں، آپ لوگوں کی طرح آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کو للکارتے نہیں۔‘‘
شاید سمجھوتا ایکسپریس سانحے ہی کی وجہ سے ٹرین کی بہت سخت حفاظت اور نگرانی کی جا رہی تھی۔ ہماری دونوں بوگیوں میں دونوں طرف چھے، چھے مسلّح اہل کار تعینات تھے، جو کسی مقامی کو بوگی کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دے رہےتھے۔ ٹرین جس بھی اسٹیشن پہ رُکتی، وہاں متعلقہ علاقے کی پولیس بوگیوں کو گھیرے میں لے لیتی۔ہم رات بھر حالتِ سفر میں رہے،نیند بھی ٹھیک سے پوری نہیں ہوئی تھی۔ اوپر سے سارا رستہ کچھ کھایا پیا نہیں، اب تو بھوک بھی چمک اٹھی تھی۔ ہریش صابری نے جو بریانی اور زردے کے پیکٹس ساتھ دیئے تھے، یار بیلی کہیں رات کے اندھیرے میں بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان پر ہاتھ صاف کر چُکے تھے۔
امرتسر پولیس اہل کار، جو بوگیوں میں تعینات تھے، انبالہ جنکشن پہ ان سے سب نے التجا کی کہ کچھ دیر پلیٹ فارم پہ اترنے دیں کہ بیٹھے بیٹھے ہماری ٹانگیں اکڑ چُکیں،آنتیں بھوک سے قل ہواللہ پڑھ رہی ہیں۔ پنجاب پولیس کے پگڑی پوش اہل کاروں نے ہریانہ پولیس کے ٹوپی پہنے اہل کاروں سے کچھ دیر گفت وشنید اور مذاکرت کیے۔ اور پھر شاید اُن کو ہماری حالت پر کچھ رحم آگیا،تو انہوں نے ہماری محدود نظر بندی ختم کرتے ہوئے پلیٹ فارم پر اُتر کر ناشتا کرنے کی اجازت دی۔
صبح صادق کا سرمئی اجالا بھی رات کی قید سے آزاد ہو کر ہماری طرح انبالہ جنکشن کے پلیٹ فارم پہ اُتر آیا تھا۔ سامنے کی طرف دوسرے پلیٹ فارم پہ بھی زندگی کی چہل پہل شروع ہوچُکی تھی۔ لوگ صبح دَم اپنی اپنی منزلوں کی طرف، اپنی اپنی گاڑی کے منتظر بیٹھے تھے اور جنکشن کی پٹریوں کی دوسری طرف انبالہ شہر کے اونچے نیچے مکان اب اندھیرے سے اُجالے کی طرف سفر کرتے ہوئے واضح نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ ہم بھی انبالہ پلیٹ فارم پہ اُترگئے۔ دل کچھ خوف، تو کچھ اشتیاق سے دَھک دَھک کر رہا تھا کہ یہ لالا جی سری رام مہتا کا شہر تھا۔ خیر، جب پلیٹ فارم پہ اتر ہی گئے، تو جانے کیوں، جون ایلیا کا یہ شعر ذہن میں ابھرا ؎ اب نہیں کوئی بات خطرے کی…اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔