• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ انصاف کےلانگ مارچ کے پرامن اختتام سے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی جو امیدپیدا ہوئی ہے، حکومت میں شامل چند عاقبت نا اندیش عناصر اس موقع کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کر کے ملک کو ایک بار پھر عدم استحکام اور انتشار کی جانب دھکیلنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وجہ سے بھی تشویشناک ہے کہ ملک سے مہنگائی کے خاتمے اور معاشی بحالی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت تاحال عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کر سکی، یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے اقتدار کا آٹھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو معاشی محاذ پر کوئی بہتری آ سکی اور نہ سیاسی محاذ آرائی ختم ہونے میں آرہی ہے۔ اس کی وجہ سے عام آدمی ہو یا مقامی و غیر ملکی سرمایہ دار یا عالمی معاشی ادارے ہر سطح پر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے نت نئے خدشات اور اندیشے سر اٹھا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ انہیں ہر فیصلے کے لئے لندن میں مقیم اپنے بڑے بھائی سے اجازت لینے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے بھی ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ معاشی محاذ پر معجزہ دکھانے کا دعویٰ کر کے وزارت خزانہ کی کرسی پر براجمان ہونے والے اسحاق ڈار نے بھی اپنی بنیادی ذمہ داریوں تک محدود رہنے کی بجائے سیاسی معاملات کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ان حالات میں وفاقی حکومت سے ریلیف کی امیدیں وابستہ کرنے والے عام شہریوں کو شدید مایوسی کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف عوام کا روز مرہ کی ضروریات پورا کرنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے اور دوسری جانب ان کا جمہوریت پر اعتماد کمزور سے کمزور تر ہورہا ہے۔ اتحادی حکومت کی معاشی پالیسیاں گزشتہ آٹھ ماہ سے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی مثال بنی ہوئی ہیں۔

مفتاح اسماعیل نے وزیر خزانہ کے طور پر آئی ایم ایف پروگرام بحال کروانے کے لئے جو سخت فیصلے کئے تھے، اسحاق ڈار نے انہیں 'عوامی مفاد میں معطل کر دیا ، جس سے عوام کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ سے معطل ضرور ہو گیا ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر پاکستان کی سیاسی اور معاشی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی مزید مشکل بنا دی گئی ہے۔ معاشی محاذ پر اختیار کئے جانے والے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شرحٔ مبادلہ کے بارے میں غیرواضح پالیسی کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں بیس فیصد تک کمی ہو چکی ہے حالانکہ یہ ترسیلات زر رئیل اسٹیٹ اور دیگر معاشی شعبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت کو سہارا دینے میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود اسحاق ڈار یہ مسئلہ حل کرنے پر توجہ دینے کی بجائے شہباز شریف کے اختیارات پر قبضے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

یہ صورتحال اس وجہ سے بھی افسوسناک ہے کہ سیلاب سے متاثرہ آبادی کا بڑا حصہ سردی کی شدت میں اضافے کے باوجود کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وفاقی حکومت نے ان کی بحالی اور آبادکاری کے لئے تاحال نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی ہے اور نہ ہی متاثرین سیلاب کے لئے کسی قسم کے فنڈز مختص کئے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی عدم توجہ کے باعث یہ بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ایک طرف سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے خاندانوں کی آبادکاری اور انفر اسٹرکچر کی بحالی کے کام میں تاخیر سے اس کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سردی کی شدت فزوں تر ہونے کی وجہ سے کوئی نیا انسانی المیہ جنم لینے کا اندیشہ پختہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ زیر آب آنے والا کثیر زرعی رقبہ ناقابل کاشت ہونے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہونے سے آنے والے چند ماہ میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس سے بھی یہ حکومت بے پروا نظر آرہی ہے۔

اس تناظر میں بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جہاں درآمدی بل میں اضافہ ہو گا وہیں برآمدات میں ہونے والی مسلسل کمی سے بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دبائو برداشت کرنا پڑے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ورلڈ بینک نے آئندہ مالی سال میں پاکستان کے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح دو فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمی اثرات کی وجہ سے پاکستان کو 2050 تک قومی پیداوار میں مسلسل کمی کا سامنا رہے گا۔ اس تنزلی کا تخمینہ اٹھارہ سے بیس فیصد تک لگایا گیا ہے۔ ان حالات میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو مزید بحران سے بچانے کے لئے خود تحریک انصاف سے مذاکرات میں پیش رفت کرے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل میں سیاسی محاذ آرائی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ جو توانائی اور وسائل عوام کی بہتر ی پر خرچ ہو سکتے ہیں۔ اس لئے جب تک سیاسی قیادت یکساں طور پر حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے نئے الیکشن کروانے پر متفق نہیں ہوتی سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کا خاتمہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

تازہ ترین