انڈیا، بنگلہ دیش کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں کے حکمرانوں کی ذہنیت تعمیری سرگرمیوں کے عوض مقبولیت کے حصول کے بجائے نفرت کی سیاست کے ذریعے اپنی بقا پر مبنی ہے۔ بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا، مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی کثیر تعداد نے 1956 کے آئین پر متفق ہو کر یہ پیغام دے دیا تھا کہ آئینی بحران کا خدشہ سیاسی فراست سے ٹالا جاسکتا ہے۔ مگر پھر ایوب خان کا ڈاکٹرائن سامنے آیا کہ میں سیاسی نظام کو ٹھیک کروں گا، یہ ڈاکٹرائن قوم کیلئے زہر قاتل ثابت ہوا اور ہم حالات حاضرہ میں بھی اس کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ بہر حال جو ہونا تھا سو ہوگیا لیکن جب سے حسینہ واجد برسراقتدار آئی ہیں وہ انیس سو اکہتر کے واقعات کی’’ بدولت ‘‘ اپنے اقتدار کو دوام دینا چاہتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس سانحہ کے وقت سے ہی اپنے آپ کو مجرم مان کر ہر ناکردہ گناہ کو بھی اپنے سر لے لیا گیا ہے، یہ رو یہ روزِ اول سے ہی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے۔ اب حسینہ واجد کی جانب سے تازہ ترین یہ شرارت سامنے آئی ہے کہ وہ 25 مارچ کو بنگالیوں کی نسل کشی کے دن کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہی ہے، امریکی کانگریس میں اس حوالے سے قرارداد پیش کروائی جارہی ہے۔ اس معاملے کو عالمی برادری کے سامنے اس انداز میں پیش کرنے کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے کہ جس سے پاکستان کی ساکھ کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچے اور حسینہ واجد بنگلہ دیش میں نفرت کی سیاست کی بنیاد پر اپنی گرتی ہوئی حمایت کو سہارا دے سکیں ۔ پاکستان کو اس حوالے سے بہت چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔اگر ہم پاکستان کے قیام سے اب تک وزارتِ خارجہ کی کارکردگی کی طرف نظر دوڑائیں تو مستثنیات چھوڑ کر ان سے اس کی توقع قائم کرنا ہی سرے سے عبث ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ کو تو اس کا ادراک ہونا چاہئے کہ اس صورتحال سے، اس قسم کے زہریلے پروپیگنڈے سے پاکستان کی ساکھ کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچے گا۔ یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کرے اور فوج پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس واقعے کو سیاسی ناکامی قرار دے کر جان چھڑانے کی بجائے وہاں جو کچھ ہوا جن وجوہات کے سبب ہوا اس کو سامنے لانے کی اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ میں انہی کالموں میں یہ گزارش کر چکا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں مظالم کی جو داستانیں گھڑ لی گئی ہیں، اعدادو شمار ان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اس کیلئےغیرجانبدار محققین سے ریسرچ کروائی جائے جو صرف سچ پر مبنی ہواور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بھی حکمت عملی تیار ہو ورنہ دنیا اس بے بنیاد پروپیگنڈے سے مزید متاثر ہو جائیگی ۔ حالاں کہ دنیا ہمارے حوالے سے کسی پروپیگنڈے کا شکار ہونے کی بجائے تعلقات کی مضبوطی کی خواہاں ہے، اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ہنگری نے پاکستانیوں کیلئے 400 اسٹیٹ اسکالرشپس دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ہنگری کے موجودہ سفیر ماضی میں جب پاکستان میں تعینات تھے تو اس وقت بھی ان کی کاوشوں سے دو سو اسکالرشپس دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگر افسوس وہ تو اسکالرشپس دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں مگر ہمارے ہاں اس پیش رفت کی رفتار کچھوے کی چال سے بھی سست ہے ہنگری سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی اپنی اسلامی تاریخ کی نمائشیں منعقد کرکے متوجہ کرنا چاہ رہا ہے مگر ہماری طرف سے توجہ ندارد! پاکستان کا ہنگری، رومانیہ اور پولینڈ سے دفاعی معاملات میں بھی تعاون چل رہا ہے مگر ہم پھر بھی دیگر امور پر توجہ نہیں دے رہے اور معاملہ صرف ہنگری تک ہی محدود نہیں بلکہ جاپان کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش ہے۔ راقم الحروف جاپانی سفارتکاروں سے پاکستان کے شہریوں کے جاپان میں روزگار کے راستے کھولنے پر گفتگو کرتا رہتا تھا۔ جاپان نے پاکستانیوں کیلئے ملازمتوں کے حصول کیلئے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا اس معاملے کو گزشتہ برسوں میں جاپان کی جانب سے مکمل بھی کر لیا گیا مگر پاکستان کی جانب سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا گیا حالانکہ ہمارے ہی شہریوں کو جاپان میں روزگار مہیا ہوگا۔ جاپان کی پاکستان سے بات ہوئی تھی کہ وہ گاڑیوں کے کارخانوں میں صرف چند پرزوں کی تیاری تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مکمل گاڑی کی مینوفیکچرنگ پاکستان میں ہوگی مگر ہم اس حوالے سے بھی کوئی پیشرفت نہیں دکھا سکے ۔ یہ معاملات حل کرنا تو پھر بھی سہل ہے، ہمارے سامنے تو اس سے بھی بڑے معاملات کھڑے ہیں جن کو ہمیں بہت باریکی سے دیکھنا ہوگا۔ چینی صدر نے سعودی عرب کا دورہ کیا، باہمی معاہدے ہوئے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمرانوں نے ان سے جس طرح ملاقات کی اس سے قبل وہ یہ طریقہ کار صرف امریکی صدر کے ساتھ روا رکھتے تھے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام اور مسئلہ فلسطين تک موضوع بحث رہا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چین عرب دنیا کو پاکستان کی آنکھ سے دیکھتا کیونکہ جو اہمیت پاکستان کو عرب دنیا میں حاصل ہے وہ محتاج بیاں نہیں مگر ہم اپنے ڈاکٹرائن کے سبب معاشی طور پر مفلوج ہیں اور ہر جگہ اپنی اہمیت کھو رہے ہیں ۔