• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کےیوتھیوں کی بدتہذیبی، غیر اخلاقی زبان درازی، یوتھی خواتین کے خان کےبارے جذبات سے بھرپور وائرل ہوتی ویڈیوز پر جب بڑے مولانا صاحب نے انہی کی زبان میں جواب دیا توپی ٹی آئی کیمپ میں ہرطرف آگ بھڑک اٹھی۔ مولانا صاحب پر بہتان تراشی اور دشنام طرازی کےتیروں کی بارش کر دی گئی لیکن بدتہذیبی کے اس مقابلے کا مولانا صاحب کو ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ ان کی ویڈیو بھی ہرطرف وائرل ہوگئی۔ قوم یوتھ سمیت ہر سیاسی جماعت کے یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے اپنے اپنے رنگ میں مولانا کی ویڈیو کو دنیا بھر میں وائرل کرکے اپنے منہ پر جو کالا سفید رنگ ملا اور پاکستانی معاشرے میں بڑھتی بدتہذیبی کو جس عالمی ریٹنگ سے نوازا ہےاس سے یقیناً ہم ”گولڈن پلیٹ“ کے حق دار تو ضرور ٹھہرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک نوجوان لڑکی نے شادی کی تقریب میں ”میرا دل یہ پکارے“ گانے پر جس طرح رقص کیا، اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ میڈیا اعدادو شمار کے مطابق رقص کرنے والی لڑکی نے صرف تین دن میں سوشل میڈیا کے ذریعے دو کروڑ روپے سے زائد کما لئے، اب تک کمائی کی اس رقم میں کتنا اضافہ ہوچکا ہو گاکوئی شمار نہیں۔ آپ میرے خیالات کو کوئی بھی رنگ دے سکتے ہیں ،مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن لچر پن، عریانی ،برہنگی، بے لگام زبانیں جب معاشرتی ٹرینڈز بن کرکمائی کا ذریعہ بنتی ہیں اور تہذیب یافتہ، مہذب، پڑھے لکھے،ہنر مند افراد ان کا منہ تکتے معاشرے کی ستم ظریفوں کا رونا روتے ہیں تو نظر آنے والی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بڑے مولانا صاحب اپنے مقام سے نیچے آکر قوم یوتھ کو اسی کی زبان میں جواب دینے پر مجبور کیوں ہوئے؟ ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ہم جتنا گند پھیلائیں گے اتنا ہی وائرل ہو کر پیسے اور ووٹ کمائیں گے، یہ گُر ہمیں کسی اور نے نہیں قوم یوتھ کے لیڈر نے گزشتہ پانچ سال میں سکھایا ہے۔ اگر اسی بدتہذیبی کی بنیاد پر ہمارے حکمرانوں کا چناؤ کیا جائے گا تو پھر ہم صنعتی، زرعی اور معاشی انقلاب کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ یہ جو سوشل میڈیا پرمجروںکی جو فیکٹریاں لگائی جارہی ہیں، یہی ہماری معاشی ترقی کا ذریعہ بنیں گی اور قوم یوتھ ان فیکٹریوں کی مالک ہوگی، ہر کوئی گھر بیٹھے کروڑ پتی بنے گا۔ اللہ ہمیں اس ترقی سے بچائے اور ہمیں ہدایت سے نوازے۔ لمحہِ موجود کو غنیمت جانیے، اپنی راہیں درست کرلیجئے ورنہ ہم اپنی ثقافتی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور دفاعی قبریں اپنے ہاتھ سے کھودیں گے، اگر ہم نے اپنی سمت درست نہ کی تو شائد اصلاح کا یہ لمحہ پھر کبھی نہ آئے ، ہم اپنی حدود سے باہر جارہے ہیں، پاک فوج کی کمان کی تبدیلی کے باوجود سوشل میڈیا پر سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف بدستور ایک منظم پروپیگنڈا مہم چلانے کے ساتھ ساتھ حیران کن طور پر نئی عسکری قیادت بارے بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ حیرت اس وقت زیادہ ہوئی کہ ابھی تک نئی عسکری قیادت نے سرکاری طور پر اپنی ٹیم میں کسی قسم کی تبدیلی کا اعلان نہیں کیا مگر سوشل میڈیا پر اعلیٰ سطح کےعسکری تقرری وتبادلوں کی جعلی فہرستیں نشر کی جارہی ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ بقول ان کے گمنامی میں چلے گئے، یہ دور دورِ عاصم منیر ہے، ہر کوئی اس دور کو اچھی امیدوں، توقعات اور نیک خواہشات سے تعبیر کررہا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی سنیارٹی، میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی سے یہ حوصلہ تو ضرور ملا ہے کہ اگر ہم زندگی کے ہر شعبے میں اسے معیار بنا لیں تو پاکستان کی سمت درست کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو معاشی اوراخلاقی طور پر مضبوط ، احساس محرومی سے پاک ہو، جہاں حق دار کو حق ملے، نوجوان نسل کو یہ یقین ہو کہ انہیں صلاحیتوں کا صلہ ضرور ملے گا، وہ جس شعبے میں قدم رکھیں گے ان کی راہ میں سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جائیں گی۔ مہذب، ترقی یافتہ معاشروں کی تشکیل اور استحکام کا یہی پہلا اور آسان ترین فارمولا ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی تعیناتی روشنی کی ایک ایسی کرن ہے کہ اگر ہم چاہیں تواسے بنیاد بنا کر اوپر سے نیچے تک پورا نظام تبدیل کرسکتے ہیں، ایک ایسا نظام جس میں فوج کی سیاسی مداخلت نہ ہو، اقرباءپروری کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ، ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا تو سبھی کہتے ہیں لیکن عملاً جب خود پر بھاری وقت آتا ہے تو انصاف کا ترازو ڈول جاتا ہے۔ یہ پچھتر سال سے رٹا رٹایا سبق بھول جاتے ہیں کہ میرٹ اور سنیارٹی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہر آنے جانے والا حکمران ا ور ڈکٹیٹر یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ کرپشن فری پاکستان، فوری اور سستے انصاف کی فراہمی، عوام کی فلاح و بہبود، غربت کا خاتمہ اس کی اوّلین ترجیح ہے۔ کوئی پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کا خواب دکھا کر چلا گیا، کسی نے ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش ظاہر کی۔ چین سے لازوال دوستی کا دم تو سبھی بھرتے ہیں لیکن دوستی نبھانے کے پیمانے پر کوئی بھی پورا نہیں اترا۔ امریکہ سے امداد بھی چاہئے اور تجارت بھی ، پھر بھی حکومتیں بنانے گرانے کا الزام اسی پر لگاتے ہیں۔ دہشت گردی سے پاک پاکستان کی ہر کسی نے کوشش کی لیکن دہشت گرد پھربھی اپنے ٹھکانے بدل بدل کر ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ہمارا بھکاریوں جیسا تأ ثر ختم کرنے کی تمنا کی آڑ میں قوم کے کندھوں پر اربوں ڈالر قرضوں کا مزید بوجھ ڈالنے میں کسی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سب سے بڑھ کر پاک فوج کی سیاست سے بے دخلی، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے وہ اسباق ہیں جو ہمیں رٹانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جس نے رٹا لگایا اس نے کچھ نہیںکمایا۔ اب یہ سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی سیاسی معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اداروں کو زور زبردستی سے دوبارہ سیاست میں نہ دھکیلیں۔

تازہ ترین