• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے آپ سے کہا تھا کہ فلم اچھی ہو یا بری، اگر کسی وجہ سے آپ کو بے انتہا اچھی لگے، تو وہ فلم آپ لگاتار دیکھتے رہتے ہیں۔ ہر بار فلم سے حظ اٹھاتے ہیں۔ مگر کب تک؟ سال دوسال؟ پانچ سال؟ دس سال؟ کراچی کے ایک سنیما میں فلم قسمت دو برس چلتی رہی تھی۔ کچھ ایسے جنونی بھی تھے جنہوں نے ایک، کبھی دو اور کچھ دیوانوں نے تین تین شو روزانہ دیکھے تھے۔ آج تک میں ایسے کسی شخص سے نہیں ملا ہوں، جس نے آخری گھڑی تک اپنی پسند کی فلم دیکھی تھی، اور فلم دیکھتے دیکھتے اس کی روح پرواز کر گئی تھی۔ زندگی میں سب کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ زندگی میں سب کچھ برا بھی نہیں ہوتا۔ وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جو ایسے ملک اور ماحول میں رہتے ہیں جہاں اچھائی کی بہتات ہوتی ہے اور خامیاں کم تر ہوتی ہیں۔ اس کرہ ارض پر ایسے ممالک بھی ہیں جہاں برائی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ کچھ بدبخت ممالک ایسے بھی ہیں جہاں لوگ ذلت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے ملک کا تجزیہ کرتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا ملک کئی ممالک سے اچھا ہے۔ مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے ملک میں ڈھونڈے سے برائی نہیں ملتی۔ خرابیاں اور خامیاں دیکھنے کے لئے لوگ بہت اوپر زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر کرپشن ہماری جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ایک ریڑھی والے کو روزانہ،ہفتہ وار اور ماہوار بھتہ دینا پڑتا ہے۔ جس ملک اور معاشرے میں دووقت کی روٹی روزی کمانے کے لئے رشوت دینا پڑتی ہو، ایسے ملک اور معاشرے میں بہت کچھ اچھا نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں سیاسی سانحوں کی لمبی فہرست ہے۔ آپ جس ملک کے باسی ہوتے ہیں اس ملک کے ماحول کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ جس معاشرے اور ماحول میں آپ کام کاج کرتے ہیں، روزی روٹی کھاتے ہیں، اس معاشرے اور ماحول کے منفی یا مثبت اثرات کا اثر نہ لیں۔ یہ امکان سے باہر کی بات ہے۔ آپ کے اطراف جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے آپ بے اختیار، غیر ارادی طور پر اس افراتفری کا اثر لے رہے ہوتے ہیں۔ میری نسل کے لوگوں نے اپنے ملک، معاشرے اور ماحول میں رہتے ہوئے اس قدر اور اس تسلسل سے سیاسی سانحے دیکھے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کس سانحے کا ذکر لے بیٹھوں۔ کچھ سانحے اس قدر حساس بنا دیئے گئے ہیں کہ ان سیاسی سانحوں کی چھان بین کرنا، ان سانحوں کے بارےمیں علمی بات کرنا جوکھم کا کام لگتا ہے۔ میں عمر کے آخری ایام میں خود کو کسی قسم کا جوکھم اٹھانے کے لئے آمادہ نہیں کر سکتا۔ کچھ سانحے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا فیصلہ عدالتوں کی بجائے لوگ سڑکوں، چوراہوں اور گلی کوچوں میں کرتے ہیں۔ مورد الزام شخص کو وحشیانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبر آپس میں لڑ پڑے۔ اسمبلیوں میں لڑنا جھگڑنا، گتھم گتھا ہونا ہماری گٹھی میں بیٹھی ہوئی روایت ہے۔ حال ہی کی بات ہے پنجاب اسمبلی کے ممبران نے ایک دوسرے کو خوب پیٹا تھا۔ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ لڑائی جھگڑے کے دوران ایک ممبر نے دوسرے ممبر کو بھاری بھرکم پیپرویٹ کس کر مارا۔ پیپرویٹ ممبر کو لگنے کی بجائے اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کے سر پر لگا۔ بیچارا ڈپٹی اسپیکر لہو لہان ہو گیا۔ اسپتال میں علاج کے دوران اس نے دم توڑ دیا اور اللّٰہ کو پیارا ہو گیا۔ اس نوعیت کے چھوٹے موٹے سیاسی سانحوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ بڑے سیاسی سانحوں میں ایک سانحے کو بہت بڑی اہمیت غالباً اس لئے نہیں ملی کہ اس سانحے میں مرنے والا سیاسی لیڈر نہیں تھا۔ منتخب ہو کر اسمبلی نہیں گیا تھا۔ سندھ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ پاکستان کی سینٹرل کمیونسٹ پارٹی کا ممبر تھا۔ پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کی ترجمانی کرتا تھا۔ استحصالی قوتوں کا سخت مخالف تھا۔ اس کا نام تھا نظیر عباسی۔ ضیا الحق کے دور میں اسے گرفتار کیا گیا، اذیتیں برداشت کرتے کرتے وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلا گیا۔ اس سانحےنے ملک گیر سطح پر طلبہ سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں نظیر عباسی کے انتقال کے بعد پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا۔

مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر آیا تھا۔ آج بنگلہ دیش باقی ماندہ مغربی پاکستان جس کے نام سے لفظ مغربی حذف کیا گیا تھا اور پاکستان کہلوانےلگا تھا، اقوام متحدہ کی ریٹنگ میں پاکستان سے کوسوں آگے نکل گیا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنے اوائلی دنوں میں بہت بڑا سیاسی سانحہ دیکھا تھا۔ اس سانحے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنی پوری فیملی سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی بیٹی حسینہ واجد اس لئے بچ گئی تھیں کہ وہ سانحے کے وقت ملک سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ تب ہم عام رواجی اور ادنیٰ پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کا المناک سانحہ اپنا سانحہ لگا تھا۔ مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ اسی نوعیت کا ایک المناک سانحہ تاریخ میں دردناک باب کا اجرا کرنے جا رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وقفہ وقفہ سے ایک ایک کر کے ان کی آل اولاد کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔ انکے چھوٹے بیٹے شاہنواز بھٹو کو جلاوطنی کے دوران زہر پلا کر مار ڈالا گیا تھا۔ انکے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو کلفٹن کراچی میں گھر کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر کے قتل کیا گیا تھا۔ بیٹی بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں عوام کے سامنے سر پر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ نصرت بھٹو کو حواس باختہ کرنے کے بعد دردناک موت مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ المناک سیاسی سانحہ آپ کو پڑھنے کے لئے نہیں ملے گا۔

تازہ ترین