• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملاحظہ کریں کہ ہم نے پاکستان کا کیا حال کردیا!! معیشت تباہی کے دہانے پر ، ایک طرف پاکستان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف عوام کیلئے مہنگائی اتنی کہ اُن کیلئے جینا مشکل ہو چکا۔سیاستدانوں کو دیکھیں توحالات کو سدھارنے کی بجائے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جس سے پاکستان روز بروز معاشی اور سیاسی طور پر مزید مسائل کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ عوام ،جن کے نام پر سیاست کی جاتی ہے اُن کیلئے زندگی اجیرن ہو چکی ہے ۔ذرا دیکھیں پنجاب میں کیا ہو رہا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کی نظر میں وہ سیاست کر رہی ہیں لیکن دونوں میں سے کسی کو فکر نہیں کہ اُن کی یہ سیاست پاکستان کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔اقتدار کی جنگ میں دونوں اطراف کے سیاستدان گویا اندھے ہو چکے ہیں۔متذکرہ حالات بہت مایوس کن اور تکلیف دہ ہیں۔ کوئی پاکستان کا حال پوچھے تو بتانے کیلئے کچھ نہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی، ہم سے بہت پیچھے رہنے والے ملک ہم سے بہت آگے نکل گئے یہاں تک کہ بنگلادیش ہمارے لیے مثال بن گیا۔ دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی ہےاور ہم پیچھے سے پیچھے کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج احتساب عدالت کی طرف سے موجودہ حکمران جماعتوں کے اہم رہنمائوں نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیس واپس کردیا گیا یعنی بند کردیا گیا ہے بلکہ آج ہی آصف علی زرداری کے خلاف مشکوک ٹرانزیکشن کا اربوں روپے کا کیس بھی احتساب عدالت نے واپس کر دیا۔گزشتہ سات آٹھ مہینوں کے دوران وزیر اعظم میاں شہباز شریف ، حمزہ شہباز، احسن اقبال، مریم نواز اور نجانے کتنے حکمرانوں کے کرپشن کیس یا تو ختم کر دیے گئے یا اُن کو بری کر دیا گیا۔ اس کے برعکس آج کل عمران خان ،جو اب اپوزیشن میں ہیں، کے خلاف توشہ خانہ کیس بنانے کیلئے تحقیقات اپنے عروج پر ہیں۔ خان کے خلاف کچھ دوسرے کیس بھی بنائے جا رہے ہیں۔ احتساب کا یہ تماشا گزشتہ دو تین دہائیوں سے بڑے زوروں سے چلایا جا رہا ہے یعنی حکمرانوں کے خلاف کرپشن کیسوں کو ختم کیا جاتا ہے اور اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی کے کیس بنائے جاتے ہیں۔ جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اُن کے کیس ختم ہونے لگتے ہیں اور جب حکومت اپوزیشن میں چلی جاتی ہے تو اُن کے خلاف کرپشن کیس بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یا تو کیس جھوٹے اور غلط طریقہ سے بنائے جاتے ہیں یا کرپشن کے ٹھوس کیسوں کو غلط طریقہ سے ختم کروایا جاتا ہے۔ کوئی مہینوں ، کوئی برسوں جیل میں بھی رہتا ہے لیکن سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کیسوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اور وہ یہ کہ اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے اقتدار کے دوران سب دھل کر صاف شفاف ہو کر نکل آتے ہیں۔ یہ کیسا ملک اور یہ کیسا احتساب کا نظام ہے کہ کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر کیس غلط بنا توبنانے والے کو سزا دو اور اگر کیس غلط ختم ہوا تو اسے غلط ختم کرنے والے کو سزا دیں۔ یہاں تک کہ عدالتیں یہ تو کہہ دیتی ہیں کہ کیس بدنیتی کی بنیاد پر بنایا گیا، کیس غلط بنایا گیا لیکن کبھی کسی عدالت نے احتساب کے نام پر یہ دھندا کرنے والے ذمہ داروں کوکٹہرےمیں کھڑا نہ کیا، جیل میں نہ ڈالا۔ یہاں ایک چیف جسٹس نے نیب کو پولیٹکل انجینئرنگ کیلئے استعمال ہونے کا طعنہ کھلی عدالت میں تو دے دیا لیکن ایسا کوئی فیصلہ نہ دیاکہ احتساب کے نام پر اس تماشہ کو روکا جائے۔ گویا پاکستان میں اقتدار کی جنگ کیلئے اور اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے سیاست اور احتساب کے نام پر جو ہو رہا ہے وہ پاکستان کو دن بدن کمزور کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے سیاستدان ملک کی خاطر، پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے، عوام کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کیلئے ایک ساتھ بیٹھ کر ایک متفقہ میثاق معیشت وضع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خراب طرز حکمرانی کو ٹھیک کرنے کیلئے بہتر گورننس کے ماڈل کے بنیادی اصولوں پراتفاق رائے پیدا کریں۔ پہلے اگر عمران خان ضد پر اڑے رہے کہ مخالفوں سے بات نہیں کرنی تو اب پی ڈی ایم والے ضد ی بن گئے کہ عمران خان سے بات نہیں کرنی۔ ان غیر جمہوری رویوں کا نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام ہو رہا ہے جس کا کسی کو احساس نہیں۔ سیاستدانو پاکستان پر رحم کرو!

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین