• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ فرق اس سے زیادہ واضح ہونہیں سکتا۔ چونکہ ہم اپنا موازنہ بھارت کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں، اور یہی ہمارا دائمی پیمانہ ، تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بھارت کے وزیر ِاعظم امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہیں اور اُن کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا جاتا ہے لیکن اس دوران پاکستان ایک شکستہ سی تصویر پیش کرتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں بھی جمہوریت ہے لیکن اصل انچارج فوج، اور اسی کا حکم چلتا ہے ۔ آرمی چیف چٹکی بجاتے ہیں اور پی ایم ایل (ن) کے وزرا نہایت فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جی ایچ کیو میں قطاردر قطار اُسی کمرے میں دکھائی دیتے ہیں جہاں کور کمانڈروں کی میٹنگز ہوتی ہیں۔
ہمیں شاید دکھاوا کرنا بھی نہیں آتا۔ یہی میٹنگ فارن آفس میں بھی ہوسکتی تھی، اس سے کم از کم سویلینز کی بالا دستی کا تاثر تو ملتا۔ خیر، میرا خیال ہے کہ اس سے ایک تاثر دیا جانا مقصود تھا، اور کیا ڈرامائی انداز میں دیا گیا۔ فوج کے ترجمان ، آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ تصویر دیکھیں، اور یہ تصویر سب کچھ کہہ رہی ہے ۔ میز کے ایک طرف کور کمانڈر بیٹھے ہیں جبکہ دوسری طرف سویلین بے بسی کی تصویر بنے ہمہ تن گوش۔ فوج کے پاس کمان ، جبکہ سویلین اہم محاذوں پر اپنی اتھارٹی سے دستبردار ہوچکے۔ اور جلدی سے کہتا چلوں، ایسا کرنے کے لئے اُنھوں نے سنگین کا سہارا نہیں لیا بلکہ سویلینز کی نااہلی نے اُن کے ہاتھ کمان تھما دی ۔ اپنی تمام تر جمہوری اتھارٹی کے ساتھ پی ایم ایل (ن) کی قیادت ، وزیر ِ اعظم سے لے کر اُن کے باصلاحیت بھائی تک، اہم قومی معاملات پر فوجی قیادت کے ساتھ بات کرنے کی تاب نہیں رکھتی۔ سیدھی سی بات ہے ، ان کے پاس اس کی صلاحیت ہی موجود نہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہیں میدان ِ سیاست کے مہان کلاکار ، اور جب اپنے اقتدار یا کاروباری مفادات کو تحفظ دینا مقصود ہوتو ان کی دانائی کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے ۔ ان معاملات میں پاکستان میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ تاہم قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی یا اسی قسم کے دیگر امور پر گفتگو کا معاملہ درپیش ہو تو جان جوکھم میں۔ خالی نظریں ، خالی تر ذہن، بصارت بصیرت سے تہی داماں، اور اس پر شاید سننے والوں کو یقین نہ آئے، ’’موقع ‘‘ پر موجود لوگ جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہاہوں۔ اس بات کا ذکرمیں پہلے بھی کرچکا کہ اپنی پہلی مدت کے دوران اُن کا جنرلوں کے ساتھ رابطے کا طریقہ اُنہیں بی ایم ڈبلیو کاروں کا تحفہ پیش کرنا ہوتا تھا۔ اگر کوئی جنرل یہ تحفہ قبول کرلیتا (اور شنید ہے کہ اُن دنوں کچھ جنرلوں نے یہ تحائف قبول کیے بھی) تو اُسے قابل ِ اعتماد اوراچھا دوست قرار دیا جاتا ۔ جو انکار کردیتا تواُسے شک و شبے کی نظروں سے دیکھا جاتا۔ آج کل بی ایم ڈبلیو کاروں کو بطور تحفہ پیش کرنے کا فیشن نہیں رہا کیونکہ پاکستانی سیاست آگے بڑھ چکی ہے ۔ آج بات صرف جنرل راحیل شریف کی نہیں، کوئی بھی آرمی چیف ہوتا تو اُسے موجودہ سیاسی قیادت کے ساتھ کمیونی کیشن کا مسئلہ پیش ضرور آتا۔ میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا۔ ابلاغ کا مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے، اور جب فوجی قیادت سے ٹھیک طریقے سے بات نہیں کرسکتے، جو کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ، تو پھر سرگوشیاں شروع کہ جمہوریت خطرے میں ہے ۔
چنانچہ ہم ایک دلچسپ مرحلے میں ہیں۔ایک جمہوری سیٹ اپ میں فوج کا حکم نہیں چلتا، اور سویلین حکم چلانے کے قابل نہیں۔ اس وقت پاکستان کی حالت ایک ایسے چھکڑے کی ہے جسے مخالف سمتوں سے کھینچا جارہا ہو۔ سویلین کا پائوں پاناما گیٹ کی دلدل میں ،ا ور وہ قومی پالیسی کے وسیع تر منظر نامے پر توجہ دینے سے قاصر، تو دوسری طرف فوجی قیادت ہر طرف مصروف ۔ غیر ملکی مہمان اصلیت سے آگاہ ہیں ، چنانچہ دورے پر آنے والا ہر مہمان جی ایچ کیومیں آرمی چیف سے ملنے جاتا ہے ۔ وہ جانتے ہیںکہ اصل اختیارکس کے پاس ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ بھارتی وزیر ِاعظم ، نریندر مودی کو داخلی طور پر مسائل کا سامنا ہو، ناقدین حکمران جماعت، بی جے پی پر عدم برداشت اور ہندوتو ا کی ترویج کا الزام لگاتے ہیں، لیکن بیرونی ممالک میں وہ اپنی بہترین کارکردگی کا تاثر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی پالیسی میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور ِ حکومت میں امریکہ اور انڈیا کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایاتھا۔ اب نریندر مودی اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ جب بھارتی وزیر ِاعظم امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہیں، وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہو لیکن یہ بھارت کے ’’پڑوس ‘‘ میں ہی پروان چڑھا ہے ۔ سامعین ’’پڑوس ‘‘ کا مطلب بخوبی سمجھتے ہیں اور تالیاں بجا کر اس کی تائید کرتے ہیں۔
اس دوران پاکستان بدستور خودمختاری کی پامالی کی رٹ لگائے ہوئے ہے، اور یہ احساس نہیں کررہا کہ جب بھی وہ طالبان رہنما ، ملاّ اختر منصور کو ہلاک کرنے والے ڈرون کا معاملہ اٹھائے گا تو یہ سوال لازمی سامنے آئے گا کہ ملاّ منصور پاکستان میں کیا کررہا تھا ، یا اس کی پاکستان کے نزدیک کیا اہمیت تھی؟جب ہماری غلطی پکڑی گئی ہو تو کیا اس پر شکایت کرتے ہوئے اسے مزید اجاگر کرنا عقل مندی کا تقاضا ہے ؟اس وقت ہم اُسی کشتی کے مسافر ہیں جس میں سعودی عرب ہے ۔ وہ بھی ایران کے ساتھ کی جانے والی جوہری ڈیل اور شامی بحران کو مرضی کے خلاف ہینڈل کیے جانے پر امریکہ سے ناراض ہے ۔ ہم بھی امریکہ سے ناراض ہیں کیونکہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں ہماری خدمات کو فراموش کرتے ہوئے بھارت کے قریب ہوتا جارہا ہے ۔ پاک امریکہ تعلقات میں یہ رویہ ایک مستقل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پہلے افغان جہاد کے دوران ہماری کارکردگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کوئی ملک بھی امریکہ کے ایک اشارے پر یوں دیوانہ وار اس دلدل میںنہ کودا جس طرح ہم ۔ جب وقت گزرگیا تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔ لیکن خدا آپ کابھلا کرے، ہم بھی قسمت کے دھنی اور عزم کے پکے ہیں۔ دوبارہ موقع آیا اور ہم پھر جلدی سے چارہ نگل گئے ۔ یہ مانا کہ ہم نے دھوکہ ہی کھانا ہے ،لیکن کیا ذرادھیرج سے ، ذرا سست روی سے ایسا نہیں ہوسکتا؟ کیا ہر مرتبہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانپ کوکارآمد رسی سمجھنا ہم پر فرض ہوچکا ہے ؟کیا ہم خدمت گزاری میں قدرے اعتدال سے کام نہیں لے سکتے؟
امریکہ کے ساتھ ہونے والے تجربات سے ہمیں یہی سبق حاصل ہوتا ہے ۔ ہمارا مسئلہ بے بصر اشرافیہ ہے جو آزادانہ سوچ کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سوچ کا محور اپنے بچوں کی امریکہ میں تعلیم یا بیرونی دنیا میں چھپائی گئی اپنی دولت سے نہیں ہٹتا ۔ کیا ہم اس اشرافیہ سے قومی مفاد کے لئے دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی توقع رکھ سکتے ہیں؟پاکستان کے حوالے سے موجودہ تاثر بھی ہمارے حق میں نہیں ہے ۔ غیر ملکی پوچھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی زمام ِ اختیار کس کے ہاتھ ہے، اور ، جیسا کہ زیادہ تر پاکستانی، حیران ہیں کہ یہ صورت ِحال کیا رخ اختیار کرے گی؟
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ الجھن ہے کہ اگرچہ جمہوریت میں ہی نجات ہے ، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ جمہوریت نے نہیں، فوج نے لڑی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف پیش قدمی سویلینز کو کرنی چاہئے تھے لیکن اُنھوں نے بہت دیر کردی، اور اس کی وجہ قیادت کا بحران تھا۔ یہ قیادت فوج کی صفوںمیں دکھائی دی، اُنھوں نے پیش قدمی کی ، قربانیاں دیں اورچونکہ فوج کی کارکردگی بہترین تھی، اس لئے تمام اختیاراُن کے ہاتھ آتا گیا اور جمہوریت ایک ڈھلتے سائے کی طرف سمٹتی گئی۔ تاہم ہمارے مسائل کا حل فوج نہیں ہے ، ہما ر ی تاریخ اس تجربے اور نتائج سے بھری ہوئی ہے ۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی ، لیکن اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ بطور ایک ادارہ فوج کچھ مخصوص کام کرنے کی ہی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اگر اس ادارے میں بھی بصیرت کا فقدان نہ ہوتا تو ہم افغان جہاد کی دلدل میں اتر کر طالبان کو اپنے سر پر سوار نہ کرلیتے ۔ چنانچہ پاکستان کا مسئلہ جنرل اسٹاف سے آگے کا ہے ۔ دوسری طرف جمہوریت کی فعالیت بھی محدود، تو کیا یہ بہتر نہیں کہ دو نصف دائروں کو ملا کر ایک مکمل دائرہ بنا لیں؟کیا فوج اور جمہوریت کا ادغام ایک فعال قوت کی صورت نہیں ڈھل سکتا؟اس وقت پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ لیکن ہمارا وہ ہیرو کہاں ہے جو پہاڑ کا ساارادہ رکھ کراس جوکھم کو اٹھائے؟
تازہ ترین