• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال تو گزر گیا مگر یہ تلخیوں اور بیانیوں کا سال تھا۔ ہر مہینہ، گویا پورا سال قدم بقدم زوال کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ پاکستان میں شمالی علاقوں سے لے کر اسلام آباد تک ٹی ٹی پی نے باقاعدہ دہشت گردی جاری رکھی۔ یاد کرائوں ریٹائرڈ جرنیل بھائی کو، ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کو ختم کرانے کے لئے بھی تو انہوں نے معاہدے کی ضد کی تھی اور آپ مان بھی گئے تھے۔ سندھ میں دیکھیں تو ایک طرف 75برس گزرے پاکستان کے قیام کو، مگر اب بھی اپنی مہاجر قومیت کی وہی تکلیف دہ صورت یاد آتی ہے جب بوریوں میں بند لاشیں ملتی تھیں۔ساتھ ہی لگتا ہے سندھ میں مراد علی شاہ کی نہیں، ڈاکوئوں کی حکومت ہے کہ ہر روز بیسیوں کا فون،بیگ اور گاڑیاں چھننا اور نوجوانوں کا بےموت مارا جانا، پورے سال میں معمول رہا ۔ پنجاب اور کے پی میں زبردستی حکومتوں نے بھی بچوں کے ساتھ زیادتیوں اور ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بنانے اور تھانوں میں بزرگ ہوں کہ نوجوان، سب کے ساتھ زیادتی کرنے کو مردانگی سمجھنے والے خود کو داد دیتے اور تو اور حکم عدولی کرنے والوں کو پارٹی سربراہ بلا کر تھپکی دیتے ہیں۔ البتہ خواجہ سرائوں کو تحفظ دینے اور خواتین کو جائیداد میں حق دینے کے سوال پر توجہ دی گئی ہے۔

افغانستان جو ہمارا برادر اسلامی ملک ہو سکتا تھا مگروہاں خواتین کو زندہ درگور کرنے، یونیورسٹیوں اور خواتین پر بندشیں لگانےاور یونیورسٹی کی لڑکیوں کے منہ میں پستول رکھ کر آواز دبانے جیسے احکامات دے رہے ہیں،وہ قطعاً رسولﷺ کے حکم کے منافی ہے۔ افغانستان اور ایران دونوں کو خواتین کے ساتھ مسلسل زیادتیاں کرتے دنیا دیکھ رہی ہے اور جس طرح دو سال سے یوکرین میں جنگ کو امریکہ اسلحہ فراہم کرکے ہوا دے رہا ہے جبکہ پیوٹن خود جنگ بند کرنے کی بات کررہا ہے، امریکہ یوکرین کے صدر کو واشنگٹن بلا کرہلہ شیری دے رہا ہےتو سامنے اسرائیلی اور فلسطینی تنازعے کو بھی ہوا، یہی بائیڈن صاحب دے رہے ہیں۔ انڈیا میں بننے والی فلم کشمیر فائلز کو دنیا بھر کے نقادوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سول لبرٹیز اور آزادیٔ اظہار کو دبانے اور سنسر شپ کو پھیلتا دیکھ کر امیتابھ بچن تک بول اُٹھے ہیں۔

2022ء میں پاکستان میں اسلام کا بہت غلط استعمال عدالتی سطح پر عام ہوگیا ہے۔ اسی ایک سال میں ایک نوجوان نے تین بچوں کو مع گاڑی کچل دیا۔ مر مٹنے والے بچوں کے خاندانوں نے دیت وصول کرکے ان کی جدائی کے غم کو دھودیا۔ یوں تو سال بھر لوگ دفتروں اور اپنے کاموں سے اٹھ کر اپنے علاقے کے ڈھابوں پر کہیں پلنگوں پر، کہیں کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے مطابق سیاسی موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔ میں نے کیا عجب دیکھا کہ لوگ ہٹلر اور عمران خان کی کبھی مقبولیت اور کبھی نامقبولیت کی بات بھی کررہے ہیں اور اپنے علاقوں کے سیانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ بتائیں ان میں سب سے زیادہ ناقابل برداشت کون ہے کہ جو اٹھتا ہے، کہتا ہے میں نے ملک کو بچا لیا ہے جبکہ زمان پارک سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ملک سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ولی خان کو یاد کریں ،افغانستان کی آگ اٹک تک آجائے گی۔

ان سب غیر فہم سیاست دانوں کو ’’گوادر کو حق دو‘‘ کی آوازیں، شمالی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بنائو، سمجھ میں نہیں آرہیں۔ ان چاروں ملکوں کو یہ اندازہ نہیں کہ دنیا زمینی تقاضوں کو بھول جانے والے کو قبول نہیں کرتی ، البتہ بے وقوف بنانے والوں کے بیانات سے سارا میڈیا اور اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔ان سارے ممالک میں امن کی تحریک بڑھائیں کہ وہ بارڈر سے فوجیں ہٹائیں، جو خرچہ ان پر ہو رہا ہے وہ سیلاب زدگان کو گھر فراہم کرنے پر خرچ کریں۔

2022ء کے جاتے جاتے، رشوت کی گونج یورپین پارلیمنٹ میںبھی ہے، چھوٹے ملکوں میں آدھے سے زیادہ ملکوں کے معزول سربراہ جیل بھگت رہے ہیں۔ پاکستان ان سے الگ ہے۔ یہاں تو یاد آیا کہ جس دن طالبان افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے تو تصویر میں دیکھا کہ کابل میں ہمارا ایک عسکری ادارے کا سربراہ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔2023ء میں، سب ذرا سوچنے والوں کی جانب سے ساری سیاسی پارٹیوں کو اپنا اپنامنشور بدلنا ہوگا کہ دنیا کے سروے کے مطابق پاکستان کے صرف 20فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے، ہر چند ہم نے سیلاب کے دنوں میں کسی زمیندار کو دیکھا کہ منرل واٹر سے پائوں اور جوتے دھو رہا تھا۔ایک سویڈش پاکستانی ،جو وہاں جج ہے، نے وصیت کی ہے کہ میں پاکستان میں نہیں، بنگلہ دیش میں دفن ہونا چاہتا ہوں مگر میں تو پاکستان میں ہی مروں گی۔

2022ء میں ہی یورپی ملکوں میں کرسمس کے موقع پر زیادہ تر لوگ کرائے پر کپڑے لے رہے ہیں۔ یورپ اور انگلینڈ میں آدھے سے زیادہ قہوہ خانے بند ہوگئے ہیں۔ لندن میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اب تین وقت کا کھانا نہیں، بس دو وقت کا مل سکتا ہے۔ دلی میں نظام الدین کے علاقے میں عورتوں نے گھروں میں کھا نابنا کر بازار میں فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان میں 2022ء میں قائد کا 146واں یوم ولادت آیا ، کاش یہ ساری حکومتیں جو روز لوگوںکو کنونشن سینٹر میں بٹھاتی رہی ہیں۔ 25دسمبر کو نوجوانوں کو ملک بھر سے بلا کر کسی سنجیدہ تاریخ دان کے ذریعے قائداعظم کے وہ احکامات یاد کراتیں کہ جہاں انہوں نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے، معاشی جھولی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس وقت شاید کوئی ڈاریا ترین نہیں تھا۔

آپ سب کو انڈیا میں علامہ اقبال کی نظم’’ لب پہ آتی ہے‘‘ پڑھنے والے استاد اور پرنسپل کو گرفتار کرنے پر غصہ آیا ہوگا، ساتھ ہی یہ تلخ حقیقت بھی سامنے رکھیں کہ ویسے تو پہلے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جارہے۔ سیلاب کے باعث، ان بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم یہ سب دیکھ کر بے شک نہ بولیں۔ دنیا دیکھ اور بول رہی ہے۔2023ء کو، سیاست کی غلاظت میں ضائع نہ کریں۔ ایٹمی قوت پہ نہیں، انسانی قوت پر بھروسہ کریںاور ہماری جوان نسل کے لئے روزگار فراہم کریں۔

تازہ ترین