• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بیچ منجدھار میں،مخمصہ، بحران کو اُجاگر رکھنا قومی مفاد میں یا اخفاملکی مفاد میں۔ تازہ شوشہ نگران حکومت کے قیام پر چہ میگوئیاں ، وطن عزیز میں سود مند کاروبار،’’ افواہوں اور جھوٹ‘‘ کا مال بیچنا ہے۔ 70 سال سے نظام سے کھلواڑ جاری ہے۔ 7جنوری 1951’’پاکستان آرمی‘‘کاقیام، نظام کیلئےسود مند نہ ثابت ہوا۔آغازِ سفر 17اپریل1953ءخواجہ ناظم الدین کی زور زبردستی برخاستگی سے10 اپریل2022 عمران خان کے اقتدار کاخاتمہ ،لا متناہی سلسلہ ہی توعذابِ مسلسل ہے۔ 70سال،بے شمار تجربات کئے اورانواع و اقسام کے نظام حکومت آزمائے ۔

ہر چند سال بعد سیاسی بحران کا معاشی بحران میں تبدیل ہونا معمول ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جب بھی مملکت کو اُچکا، اداروں پر قوم کا منقسم ہونا فطری عمل، ریاست کمزور ہوئی، ملک دولخت ہوگیا۔ جب بھی سیاسی عدم استحکام گمبھیر ہوا تو فوجی قیادت نے ملکی سیاسی معاملات سے لاتعلقی اور آئین کے اندر رہنے کا عزم سنایا۔ سِتم ظریفی ،ہمیشہ عزم میں اخلاص کا فقدان تھا۔ عمران خان پراجیکٹ اسٹیبلشمنٹ کا ایک فلیگ شپ پراجیکٹ، خیال تھا کہ عرصہ دراز سے حسرتوں کو مستقل سکونت ملنے کو ہے۔ بغیر مارشل لا کے ہمیشہ کے لئے پورا اقتدار بذریعہ جمہوریت استعمال میں رہنا تھا۔ عمران تجربے سے وطن عزیز جان کُنی کے عالم میں ہے۔ ذمہ دار عمران خان نہ موجودہ حکومت ،عمران خان تو بیچارہ فقط ایک مہرہ ناچیز تھا۔ پاکستان بربادی کے گڑھے میں، ’’ میں کس کے ہاتھوں پر وطن کا خون تلاش کروں‘‘۔ سلیکٹرز جب عمران خان کو لائے ، سارے کوائف اُن کی فائل میں موجود تھے،پھر ایسی واردات کا کیوں سوچا گیا؟ ایسی منصوبہ بندی کیوں کی کہ آج پوشاکِ وطن تار تار ہے؟ ایسے محب وطنوں کی موجودگی میں بھلا دشمن کی کیاضرورت۔

سی پیک منصوبہ ،پاکستان نے ترقی خوشحالی اور استحکام کی راہ پر گامزن رہنا ہے۔اقتصادی راہداری منصوبہ میں ملفوف چین اور پاکستان کا دفاعی اشتراک تھا، امریکہ اور بھارت کواِسے ناکام بنانا تھا۔ہم کیوں مددگار بنے؟ تکلیف اتنی کہ دشمنوں کے منصوبے کو ہم نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ نواز شریف کی برخاستگی بذریعہ سپریم کورٹ ضرور، امریکہ بطور سہولت کار اس لئے میسر تھا کہ بعد ازاں پاکستان کی قسمت کے کھیل میں برابر شریک رہ سکے۔

عمران خان کی ساڑھے تین سالہ شاندار ناکامی نے ریاست کا باجا بجادیا۔2021 کے اواخر میں یقین تھا،سال 2022 عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے ٹکرائو کا سال ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو مارچ تک گھر بھیج کر دم لینا ہے۔ خدشہ اتناتھا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی لڑائی حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے ذریعے لڑے گی۔عمران مخالف سیاسی جماعتیں اگر مہرہ بنیں تو زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کا ہونا تھا۔ لیگی قیادت کے گوش گزار کیاعمران خان حکومت گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بنے تو ووٹر سے دھوکہ اور پارٹی کی سیاسی موت ہو گا۔حکومت بنانے کے لئے گیارہ جماعتوں کو پارلیمان کے اندر سات جماعتوں میں ملا نا تھا۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہو گا،حکومت مخالف جگہ (OPPOSITION SLOT) اکیلے عمران خان کے پاس رہے گی۔ساری بڑی سیاسی، مذہبی، لسانی، علاقائی، قومیتی جماعتیں حکومت میں،کراچی تا چترال عمران خان اکیلا اپوزیشن میں، دل دہلانے کے لئے یہی منظرکافی تھا ۔

مہم چلائی ،مسلم لیگ ن کی قیادت کو سمجھایا،اگر تحریک عدم اعتماد لائے تو آپکی مقبولیت عمران خان کو منتقل جبکہ عمران خان کی غیر مقبولیت آپ لوگوں کے گلےکا ہار بنے گی۔ بالآخر وہی کچھ ہوا جس کا ڈر تھا۔مفاد تھا یا تجاہل، اندھا دھند حکومت پکڑلی۔ اب یہ عالم ہے کہ ملکی سیاست مضبوطی کے ساتھ عمران خان کی گرفت میں ،حکومتی سیاست’’ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ ۔نواز شریف کی 40 سالہ سیاست دفنا کر مسلم لیگ ن نے اپناوزیراعظم منتخب کر وا لیا۔

اس دفعہ ایک نیا تڑکہ، جنرل باجوہ 26 نومبر تک ہر لمحہ اپنے ذاتی مفاداتی ایجنڈے پر کار بند رہے۔در حقیقت، وہ پہلے دن سے ہی موجودہ حکومت کو گرانے میں جت گئے۔ عمران خان کو ہٹایابھی اس لئے کہ موجودگی ذات مبارکہ کے لئے خطرناک تھی۔ برخاستگی کا خطرہ اور توسیع کا خواب تتربتر ہوتا نظر آ رہا تھا۔

اکتوبر نومبر میں مارشل لا کی افواہیں ہر سو عام رہیں تا کہ حکومت دباؤ میں آجائے۔عبرت اتنی، پاکستان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار دو کردار جنرل باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثارآج عزت کے کسی بھی منصب پر فائز ہونے سے محروم ہیں۔

دوسال پہلے میجر جنرل بابر افتخار نے جب فرمایا کہ’’ فوج سیاست سے لاتعلق ہو چکی ہے ‘‘، مؤدبانہ عرض کی کہ زمینی حقائق مطابقت نہیں رکھتے۔ 2021 یا2022 اسٹیبلشمنٹ سیاست میں یکسوئی کے ساتھ ملوث ہے۔ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کا پروگرام لاتے ہی ساتھ نتھی رکھا۔

زمینی حقائق، پاکستان کی معیشت جان کُنی کے عالم میں ،اسحاق ڈار کی حوصلہ افزا تقاریر سعی لا حاصل ہیں۔معاشی ابتری عفریت بن چکی ،جان لیوا بننے کو ہے۔ خدشہ ہے کہ عمران خان کی بھرپور سیاسی موجودگی اور معاشی ابتری کے دباؤ میں اسٹیبلشمنٹ غلط سمت میں نہ چل پڑے۔ ماورائے آئین اقدامات یا سازباز وطنی کفن میں آخری کیل ثابت ہو گا۔اگر شہباز شریف حکومت پر دباؤڈال کر مفاہمت کے ساتھ رخصت کیا تو مسلم لیگ ن سیاست کی رہی سہی کسر پوری ہو جائے گی ۔ بفرض محال شہباز حکومت کو زور زبردستی نکالا گیا تو عزتِ سادات کے کچھ بچنے کے امکانات رہیں گے،تاہم سیاست پھر بھی عمران خان کے کنٹرول میں رہے گی۔ معزولی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف صف آرائی، اتحادی جماعتوں کو عمران خان کے پیچھے صف بندی پر مجبور رکھےگی۔ ایک صورت اگر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان مفاہمتی معاملات طے پاگئے تو مسلم لیگ ن کو کُبڑے والی لات ، اُنکی سیاست میں جان پڑنے کاقوی امکان موجود ہے۔ دو شرائط منسلک، مسلم لیگ (ن)کو پھر سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست پروان چڑھاناہو گی اوردوسرا اس جاری دھینگا مشتی میں پاکستان کا بچنا ضروری ہے۔ فی الحال حکومت کو کوشش اتنی کرنی چاہئے کہ توکل علی اللہ مدت ملازمت پوری کریں۔ شاید آنے والے دنوں میں معجزاتی طور پر بہتر صورت نکل آئے۔وقت کی گھڑی عمران خان کے پاس نہیں ہے۔ عمران خان جلدی میں ہے۔ باقی ماورائے آئین اقدامات کرنے کے لئےاگر دو ادارے گٹھ جوڑ کرتے ہیں تو مؤدبانہ گزارش اتنی کہ وقت سے پہلے انتخابات یا وقت کے بعد انتخابات ، ریاست پاکستان متحمل نہیں ہو پائے گی، خاکم بدہن ریاست آپکے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ٹیکنو کریٹ حکومت مسائل کا حل نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین