• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاسی و عسکری تبدیلیوں سے بھرپور سال 2022اپنے اختتام کو پہنچا ۔معیشت کے حوالے سے سال 2022کچھ اچھا نہیں رہا۔ پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ ن کو 2022نے اقتدار دیا مگر ساتھ ہی ان تمام جماعتوں کی عوامی مقبولیت بے حد متاثر ہوئی۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیلئے سال 2022کا آغاز ہی آزمائشوں کا پیغام لے کر آیا تھا ،اس سال کے دوران اقتدار تو ضرور ان سے روٹھا مگربدلے میں انہیں ایسی عوامی مقبولیت نصیب ہوئی،جس کا کوئی بھی سیاستدان صرف تصور ہی کرسکتا ہے۔ انکے چار سالہ اقتدارکی بدانتظامی پر مبینہ امریکی سازش بیانیہ نے نہ صرف پردہ ڈال دیا بلکہ ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار ہونے لگی مگر اس ساری سیاسی نورا کشتی میں پاکستان کی سسکیاں لیتی ہوئی معیشت مزید زمیں بوس ہوگئی۔مہنگائی و بے روزگاری کا ایساطوفان نمودار ہوا کہ سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔جن لوگوں کو 2020میںکورونا نہیں متاثر کرسکا تھا ،سال 2022میں ان لوگوں کو بکھرتے دیکھا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی ٹیم سے عوام کو بہت توقعات وابستہ تھیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے ناکام ترین چار برسوں سے ستائے عوام شہباز حکومت کو اپنے لئے مسیحا سمجھ رہے تھے۔مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ نو ماہ کی حکومت بھی عمران دور کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔وجوہات جو بھی ہوں مگر ریکارڈ پر نتائج ہی رہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اب تک وفاقی حکومت ڈیلیور نہیں کرسکی ۔عمران دور کی معاشی پالیسیاں اپنی جگہ مگرجب پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی تھی تو اسے تمام چیزوں کا ادراک ہونا چاہئے تھا۔آج موجودہ حکومت صرف عمران کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے ووٹر کو مطمئن نہیں کرسکتی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن نے اس اقتدار کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ نوازشریف صاحب نے حالیہ اقتدار کی قیمت اپنی چالیس سالہ سیاسی جدوجہد کو رسک پر ڈال کر ادا کی ہے۔اس سارے عرصے میں سب سے زیادہ نقصان میاں نوازشریف کی جماعت کا ہوا ہے۔مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہےکہ شہباز شریف کی حکمت عملی نے ہی عمران خان کے دس سالہ پلان پر پانی پھیرا ہے۔عسکری ادارے میں اگر ایک دیانتدار اور باصلاحیت سربراہ کا تقرر ہوا ہے تو کریڈٹ شہباز شریف کو ہی جاتا ہے۔کیونکہ اگر مسلم لیگ ن اور شہباز شریف مارچ میں عدم اعتماد پر راضی نہ ہوتے تو شاید مسلم لیگ ن کیلئے 2023سخت آزمائشوں کا سال ہوتا۔کیونکہ نومبر کی تعیناتی کے حوالے سے جو فیصلہ میاں نوازشریف نے کروایا ہے ،وہ شاید ممکن نہ ہوتا۔بہرحال نوازشریف بھی اپنے ارادوں میں بے حد پختہ ہیں۔

آج ادارے کے سربراہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چھ سال میں جو کچھ ہوا اب سب سے پہلے انہیں اپنا ہاؤس اِن آرڈر کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے وہ دن رات لگے بھی ہوئے ہیں۔مگر شہباز صاحب اور اسحاق ڈار کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔دونوں افراد مسلم لیگ ن کے اوپننگ بلے باز ہیں۔دیانتدار اور محنت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر آج ووٹر نتائج مانگ رہے ہیں۔پاکستان میں اسحاق ڈار سے بڑا معیشت دان کوئی نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک ان کی وزارت خزانہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔

شہبازشریف اور ان کی ٹیم کے پاس وقت بہت کم ہے۔عوام کو ہمیشہ مسلم لیگ ن سے کچھ زیادہ ہی توقعات رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ن خود ہے،کیونکہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ عوامی توقعات سے بڑھ کر ڈیلیور کیا ہے۔آج بھی عوام اسی کارکردگی کے انتظار میں ہیں۔شہباز صاحب ! نئے سال کے آغاز سے ہی آپ کی حکومت کی گنتی شروع ہوچکی ہے۔جتنا بھی طویل کرلیں،ایک سال سے زیادہ عام انتخابات کو موخر نہیں کیا جاسکتا۔وقت تیزی سے گزر جائے گا۔آپ کی جماعت کے صف اول کے رہنما پوچھتے ہیں کہ عمران خان کے جھوٹے بیانیے کا توڑ کیا ہے۔عمران خان کی مقبولیت کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ڈیلیو ر کریں۔اگر حالات اتنے ہی خراب تھے تو حکومت لینی ہی نہیں چاہئے تھی اور اگر لے بھی لی تھی تو چند ہفتے بعد چھوڑ دیتےلیکن جب حکومت رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو اب مسائل کی وجوہات نہ بتائیں بلکہ ان کا حل نکال کر دیں۔اگر آ پ کی حکومت دوبارہ ڈالر کو 170روپے سے نیچے نہ لائی،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں واپس120روپے تک نہ پہنچیں،گندم 2000روپے سے نیچے کنٹرول نہ ہوئی، بجلی کا یونٹ واپس اپنی جگہ پر نہ آیا تو یاد رکھیں کہ آئندہ انتخابات جیتنا تو بہت دور کی بات ہے ،مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

گندم ،کھاد سمیت بہت سے معاملات صوبائی سبجیکٹ ہیں مگر عوام مرکزی حکومت کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔کیونکہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کا ٹارگٹ ڈیلیور کرنا نہیں بلکہ مرکزی حکومت کو ناکام کرنا ہے۔آج آپ کو تمام اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ بیٹھ کر حتمی پلان تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔پنجاب حکومت کے بغیر مرکزی حکومت کوئی ٹارگٹ بھی حاصل نہیں کرپائے گی۔اگر عمران خان کے جھوٹے بیانیے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زمیں بوس کرنا ہے تو آج تمام اسٹیک ہولڈرز کو آپ کی ویسے ہی سپورٹ کرنا ہوگی جیسے جنرل فیض اور باجوہ چھ سال تک عمران کی کرتے ہے ،وگرنہ جلد وہ صورتحال آنے والی ہے کہ آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی۔

تازہ ترین