ہم پچھلے کئی برس سے سُنتے آرہے ہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے۔ فلم کا ٹائی ٹینک ڈوبنے والا ہے۔ لالی وُڈ کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں نہ کی گئیں، تو یہ صنعت تباہ و برباد ہوجائے گی، لیکن سالِ رفتہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے قدرے انقلابی اور اُمید افزا سال ثابت ہوا کہ سال کے آغاز ہی سے مختلف فلموں کے ریلیز ہونے کی خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں۔ جس سے ایک طرف سنیما گھروں کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوئیں، تو دوسری جانب بالی وُڈ کی طرز پر ہمارے فلمی ستاروں نے بھی انٹریکٹیو پروموشنل ٹورز کا آغاز کی، جن میں فلموں کی کاسٹ اورہدایت کار وغیرہ شامل رہے۔
خصوصاً عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کے لیے پروڈیوسرز اور ہدایت کاروں سمیت تمام اسٹار کاسٹ بہت پُرجوش اور پروموشنل مہم میں انتہائی سرگرم نظر آئی۔ فلم ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ سے لے کر ’’جاوید اقبال‘‘، ’’ لندن نہیں جاؤں گا‘‘ ،’’قائدِاعظم زندہ باد‘‘، ’’ضرار‘‘،’’دَم مستم‘‘، ’’عشرت میڈ اِن چائنا‘‘، ’’رہبرا‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’پردے میں رہنے دو‘‘، ’’زندگی تماشا‘‘،’’ چکر‘‘،’’ٹِچ بٹن‘‘ اور ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ ‘‘تک پاکستانی ستارے مقامی تھیٹرز، بڑے پردے پر ایک مرتبہ پھر جلوہ گر ہونے کو بھرپور تیار نظر آئے۔ جب کہ ’’مولا جٹ‘‘، ’’کملی‘‘ اور بہت حد تک متنازع فلم، ’’جوائے لینڈ ‘‘کا تذکرہ تو مُلک کےساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی خاصےزور و شور سے سُنا گیا۔
تب ہی فلمی پنڈتوں نے سال2022 ء کو پاکستانی فلمی صنعت کے لیے بہت ہی حوصلہ افزا قرار دیا۔ گو کہ عید پر ریلیز ہونےوالی فلمیں زیادہ بزنس نہیں کر سکیں، لیکن بعد ازاں،’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کی کام یابی نے فلمی صنعت میں گویا ایک نئی روح پھونک دی۔ اگرچہ پاکستان فلم انڈسٹری پر سرمایہ کاری کرنے والوں کا بحران ہے، لیکن یہ بات انتہائی خوش آئند ہےکہ اِس وقت لاہور اور کراچی دونوں بڑے شہروں میں فلمی صنعت کی بحالی کےلیے تسلسل سے کام ہو رہا ہے۔ جہاں ماضی میں چند ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ پروڈیوسرز نے فلموں میں فحاشی عام کی،وہیں دورِ حاضر میں بیرونِ مُلک سے فلم پروڈکشن، ڈائریکشن، اداکاری اور آرٹ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرکےآنےوالےنوجوان، نئےاذہان پاکستانی فلمی صنعت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
سال2022 ء مجموعی طور پر پاکستانی شوبز انڈسٹری کے لیے ایک اچھا سال رہا کہ اس برس جہاں فلم نگری میں ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ نے اپنے گنڈاسےسےآج تک کی ریلیز ہونی والی پاکستانی فلموں کو پیچھے دھکیل دیا، تو وہیں میوزک کی دنیامیں علی سیٹھی اور شائےگل کےگانے’’پسوڑی‘‘ نے بھی دنیا بھر کے گلوکاروں اور گانوں کو مات دے دی۔ یہی نہیں، سالِ گزشتہ پہلی بار ایک پاکستانی گلوکارہ، عروج آفتاب کو ’’گریمی ایوارڈ‘‘ ملا، تو فلمی دنیا کے بڑے میلے ’’کانز‘‘ میں بھی پاکستانی فلموں کا چرچا رہا۔ نیز، سرچ انجن گوگل نے سال 2022ءکی جو سرچ رپورٹ جاری کی، اُس کے مطابق پاکستانیوں نے 2022ء میں جس فلم کو سب سے زیادہ گوگل کیا، وہ ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ تھی۔
جب کہ مُلک ہی نہیں، دنیا بھر میں گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے گانوں میں ’’پسوڑی‘‘ اول نمبر پر رہا۔ یاد رہے، ’’پسوڑی‘‘ گانے کو یوٹیوب پر 40 کروڑ 61 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا اور سناجاچُکا ہے، اس گانے کی مقبولیت اُس وقت بھی بڑھی، جب اس پر معروف شخصیات کی جانب سے ویڈیوز بنانے کاسلسلہ شروع ہوا۔ ہالی وُڈ کی برٹنی اسپیئر ہوں یا بالی وُڈ کے اریجیت سنگھ، ناروے کاڈانس گروپ،’’کوئک اسٹائل‘‘ ہو، جرمن گلوکار ہوں یا افریقی، سب ہی اس گانے کے سحر میں ڈوبے نظر آئے۔
ایک ٹرک کے پیچھے لکھاجملہ ’’اَگ لاواں تیری مجبوریاں نوں‘‘ گانے کی شکل میں ڈھل کر دنیا بھر میں ایسی مقبولیت حاصل کرلےگا، اس کا اندازہ شاید خود موسیقار اور گلوکاروں کو بھی نہ تھا۔ پنجابی زبان میں تخلیق کیے گئے اس گانے کو اب تک کئی زبانوں میں پیش کیا جا چُکا ہے اور تاحال پاکستان کے میوزیکل پروگرام ہوں یابیرون مُلک ڈانس کلبز، ہر جگہ اس نے دھوم مچارکھی ہے۔ نیز، بلوچی زبان کے گانے ’’کنا یاری‘‘ نے بھی، جسے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے گلوکار عبدالوہاب بگٹی، لیاری، کراچی کے کیفی خلیل، اور حجاب گرل، ایوا بی کی خُوب صُورت آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا، مقبولیت کے کچھ نئے ریکارڈ قائم کیے۔
گزشتہ سال پیش کیے جانے والے مُلکی وفاقی بجٹ میں ’’بائنڈنگ فلم فنڈ‘‘ اور ’’نیشنل فلم انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نےبجٹ میں شوبز انڈسٹری کےلیے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فن کاروں کے لیے’’میڈیکل انشورنس پالیسی‘‘ متعارف کروانے جا رہی ہے، جب کہ سالانہ ایک ارب روپے فنڈ کے ساتھ ’’بائنڈنگ فلم فنڈ‘‘ کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ نیز، ایک ارب روپے کی لاگت سے ’’نیشنل فلم انسٹی ٹیوٹ‘‘، ’’نیشنل فلم اسٹوڈیو‘‘ اور ’’پوسٹ پروڈکشن فیسیلٹی سینٹر‘‘ بھی قائم کیے جائیں گے۔ ساتھ ہی سنیما ہالز، فلم میوزیم اور پروڈکشن ہاؤسز بنانے والے افراد کو پانچ سال کی اِنکم ٹیکس چُھوٹ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔
وزیرِ خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ غیر مُلکی فلم سازوں کو مشترکہ منصوبوں کے تحت پاکستان میں 70 فی صد شوٹنگ کا پابند کیا جائے گا، تاکہ مُلکی سیاحت و صنعت فروغ پا سکے اور ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز پر عائد8فی صد وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فلم اور ڈرامے کی پروڈکشن کے آلات کی خریداری پر بھی پانچ سال تک کی کسٹم ڈیوٹی کی معافی کا اعلان کیا۔ نیز، کسٹم ایکٹ 1969 ء اور فنانس بِل 2018 ء میں ترمیم کرتے ہوئے فلم، ڈراما پروڈکشن کے آلات منگوانے پر سیلز ٹیکس صفر کر کے انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی بھی ختم کرنے کا اعلان کیا، جب کہ ’’پاک فلکس‘‘ نامی اسٹریمنگ ویب سائٹ بنانے کا اعلان بھی ہوا، جس پر پی ٹی وی کا کانٹینٹ آن لائن دکھایا جائے گا۔
سالِ رفتہ کی بہترین فلموں کی بات کریں، تو ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ نے تو اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، لیکن کملی، دَم مستم، قائد اعظم زندہ باد، گھبرانا نہیں ہے، لندن نہیں جاؤں گا، زندگی تماشا، ضرار اور ٹچ بٹن بھی اچھا بزنس کرنے میں کام یاب رہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ 70 کروڑ روپے کے بجٹ سے بنائی گئی۔ اس فلم سے متعلق مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض ایک فلم نہیں، بلکہ ایک پورا دَور ہے۔ ایک ایسا دَور، جس میں فلم ساز نےپاکستان کو بین الاقوامی سینما کے مدِّمقابل لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی اس منہگی ترین فلم کے پروڈیوسرز عمارہ حکمت اور اسد جمیل خان ہیں، جن کا اس سے پہلے فلم پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہیں۔
البتہ فلم کے ہدایت کار اور شریک پروڈیوسر بلال لاشاری کی صلاحیتوں پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ یاد رہے، مولا جٹ میں مُلکی تاریخ کےمنہگے ترین ویژول ایفیکٹس استعمال ہوئے،جب کہ پنجاب کے مختلف دیہی علاقوں اور خاص طور پر لاہور کےشاہی قلعے کی تاریخی عمارت میں عکس بندی نے بھی فلم کو چارچاند لگادیئے۔ اس فلم کی تیاری کا آغازلگ بھگ10 سال قبل ہواتھا۔ ایک بار یہ 2019ء میں ریلیز کے لیے تیار ہوئی، تو پرانی’’مولا جٹ‘‘ کے فلم ساز کی طرف سے مقدمہ دائر کرنے کے باعث اس کی ریلیز ملتوی کردی گئی۔ پھر 2020ء میں اس کی دوبارہ نمائش کا اعلان ہوا، تو کورونا وبا کے باعث ریلیز رُک گئی۔
بعدازاں،13 اکتوبر 2022ء کو عالمی سطح پر یعنی 25 مختلف خطّوں میں 500 سے زائد سنیما اسکرینزپر ریلیز کی گئی۔ مولا جٹ کی کہانی اُن ہی ناصر ادیب نے تحریر کی، جنہوں نے 1979ء کی سُپر ہِٹ فلم ’’مولا جٹ‘‘ لکھی تھی۔ ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کی کہانی دو خاندانوں کی دشمنی پر مبنی ہے، جس میں مولاجٹ انصاف پسندی اورنوری نت بدمعاشی کاسمبل ہیں۔ جب کہ اداکاروں میں فواد خان (مولا جٹ)، حمزہ علی عباسی (نوری نت)، ماہرہ خان (مکھو)، فارس شفیع (مودا)، حمیمہ ملک(دارو )، گوہر رشید (ماکھا)، راحیلہ آغا(ماں) اوردیگر شامل ہیں۔
جب کہ بطور مہمان اداکار بابر علی اور ریشم بھی نظر آئے۔ یاد رہے، مولا جٹ نے دو سو کروڑ سے زائد بزنس کرنے کے علاوہ کئی مزید ٹائٹل بھی اپنے نام کیے، جن میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی پاکستانی فلم، سال 2022 ء میں برطانیہ میں برِصغیر کی دوسری سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم اور ناروے میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی جنوب ایشیائی فلم کے علاوہ پاکستان سے باہرجانے والی سب سے بڑی ریلیز کا اعزاز بھی شامل ہے۔ نیز، یہ فلم فرانس میں بھی ریلیز ہوئی اور زبردست پذیرائی حاصل کی۔
فلم ’’کملی‘‘ کی کہانی انتہائی سادہ، مگر پُراثر ہے کہ سرمد کھوسٹ نے فاطمہ ستار کی لکھی ہوئی اس سادہ سی کہانی پر مبنی اسکرین پلے کو انتہائی مہارت سے ایک مکمل فلم کی شکل دی۔ فلم کی کہانی صبا قمر (حنا) کے کردار کےگرد گھومتی ہے، جو ایک بے نام وادی کے ایک گھر میں اپنی اندھی نند سکینہ (ثانیہ سعید) کے ساتھ بظاہر ایک عام سی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ آٹھ سال پہلے اس کا شوہر روزگار کی تلاش میں مُلک سے باہر جاتا ہے اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔
ان حالات میں حنا کی ملاقات اس وادی میں آئے ایک مسافر املتاس (حمزہ خواجہ)سے ہوتی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے محبّت ہوجاتی ہے۔ کملی کی کہانی سے ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسی لوک داستانوں کی مہک آتی ہے، بس فرق اتنا ہے کہ حنا اور املتاس کی محبت کا یہ فسانہ آج کے دَور کا ہے۔
فلم ’’قائدِ اعظم زندہ باد‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی پیغام پر مبنی تھی، جسے ہدایت کار نبیل قریشی نے عُمدگی کے ساتھ تمام ترفلمی مسالے چھڑک کر پیش کیا۔ فلم کا مرکزی کردار فہد مصطفیٰ (انسپکٹر گلاب مغل) نے نبھایا، جو ایک بدعنوان تھانے دار تھا اور جس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف پیسا جمع کرنا تھا۔ ماہرہ خان نے فلم میں ’’جیا‘‘ کا کردار ادا کیا، جو جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ سماجی کارکن تھی۔
’’لندن نہیں جاؤں گا‘‘ ایک رومانی کامیڈی فلم تھی، جس کے ہدایت کار ندیم بیگ تھے۔ فلم کو سِکس سگما پلس کے بینر تلے ہمایوں سعید نے پروڈیوس کیا، جب کہ تحریر خلیل الرحمان قمر کی تھی۔ فلم کی کاسٹ میں ہمایوں سعید، مہوش حیات اور کبریٰ خان کے ساتھ صبا فیصل، واسع چوہدری اور گوہر رشید بھی شامل تھے۔ ’’فلم گھبرانا نہیں ہے‘‘ میں صبا قمر، زاہد احمد، سید جبران، نیّر اعجاز، افضل خان (ریمبو)، سلیم معراج، سہیل احمد اور دیگر اداکار جلوہ گر ہوئے۔
مذکورہ فلم ثاقب خان نے ڈائریکٹ کی اور اس کی پروڈکشن کے فرائض جمیل بیگ اور حسن ضیا نے نبھائے۔ فلم ’’ٹِچ بٹن‘‘ کی کاسٹ میں ایمان علی، فرحان سعید، فیروز خان، سونیا حُسین، عروہ حُسین اور سہیل احمد شامل ہیں۔ اسی طرح اداکار عدنان صدّیقی کی پروڈیوس کردہ پہلی فلم ’’دَم مستم‘‘ میں چھوٹی اسکرین کے معروف اداکار عمران اشرف جلوہ گر ہوئے۔ دَم مستم کو ابتدائی طور پر2020 ء میں ریلیز کیا جانا تھا، مگر کورونا وبا کے باعث اس کی نمائش میں تاخیر ہوئی۔ فلم کی خاص بات یہ تھی کہ جہاں یہ عمران اشرف کی بڑے پردے پر ڈیبیو تھی، وہیں اداکارہ امر خان بھی بطور فلم لکھاری متعارف ہوئیں۔ یاد رہے، دَم مستم کی کہانی امر خان اور عمران اشرف کے رومانس اور بچپن کے پیار، دوستی اور لڑائی جھگڑوں پر مبنی تھی۔
علاوہ ازیں، سالِ رفتہ بالی وُڈ میں راج کرنے والی فلموں میں براہمسترا، بھول بھلیّاں پارٹ ٹو، گنگو بائی کاٹھیا واڑی، دی کشمیر فائلز، گہرائیاں، بدھائی ہو، ڈارلنگز، لال سنگھ چڈھا، وکرم ویڑھا، مانیکا اومائی ڈارلنگ، بھیڑیا، ڈاکٹر جی، اے زندگی، جوگی، رن وے، آنیک، لائف اِز گُڈ، اور سلام وینکی شامل رہیں۔ ان موویز میں ’’گنگو بائی کاٹھیاواڑی‘‘ اور’’ڈاکٹرجی‘‘اپنےمنفرد موضوعات اور ’’براہمسترا‘‘ زبردست ویژول ایفیکٹس کی وجہ سے فلمی بینوں میں بےحد مقبول ہوئیں۔
واضح رہے، 100-150 کروڑ کے بجٹ میں بننے والی فلم ’’گنگو بائی کاٹھیاواڑی‘‘ اب تک 209.77 کروڑ روپے کما چُکی ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں عالیہ بھٹ نے مرکزی کردار ادا کیا، جب کہ دیگر کاسٹ میں اجے دیوگن، وجے راز اور شانتنو مہیشوری شامل تھے۔ اس فلم کی کہانی کامتھی پورہ کی ایک رقّاصہ گنگوبائی کی زندگی پر مبنی تھی، جو اپنے محبوب کی دھوکادہی کی وجہ سے ایک کوٹھے تک پہنچ جاتی ہے اور بعدازاں، ممبئی مافیا کی طاقت وَرترین شخصیات میں شامل ہوتی ہے۔ اس فلم میں عالیہ بھٹ کی لاجواب اداکاری کو خُوب سراہا گیا اور فلم نے ریلیز کے پہلے ہی روز باکس آفس پر دھوم مچادی۔
دوسری جانب، فلم ’’ڈاکٹرجی‘‘ کی کہانی بھوپال کے ڈاکٹر اُدے گپتا (آیوشمان کُھرانہ) کےگردگھومتی ہے، جس نے حال ہی میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا ہوتا ہے اور اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ ڈاکٹراُدے اپنے کزن ڈاکٹر اشوک گپتا سے متاثر ہو کر آرتھوپیڈیکس میں پوسٹ گریجویشن کرنا چاہتا ہے، لیکن پڑھائی کے لیے اپنی ماں کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر جانےپر بھی آمادہ نہیں ہوتا، لہذا اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی گائناکالوجی میں پوسٹ گریجویشن کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
فلم میں ایک مرد ڈاکٹر کی گائناکالوجی کی فیلڈ میں مشکلات کا بہت عُمدگی سے احاطہ کیا گیا ہے اور فلم کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ ’’ایک ڈاکٹر، صرف ڈاکٹر ہوتا ہے اور جب وہ آن ڈیوٹی ہوتا ہے، تو اس کے لیے مریض اور بیماری سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہوتا۔ اُسے صرف علاج سے غرض ہوتی ہے، مریض کی جنس سے نہیں۔‘‘ یاد رہے، 25 کروڑ کے بجٹ میں بننے والی یہ فلم باکس آفس پر تاحال 44 کروڑ روپے کما چُکی ہے۔ جب کہ عالیہ بھٹ اور رنبیر کپور کی فلم ’’براہمسترا‘‘ کہانی کے اعتبار سے تو کچھ خاص پسند نہیں کی گئی، البتہ ویژول ایفیکٹس اور اسٹار کاسٹ کی وجہ سے لوگوں کی توجّہ حاصل کرنے میں کام یاب رہی۔ واضح رہے، 375-400 کروڑ میں بننے والی یہ فلم باکس آفس پر اب تک قریباً 431 کروڑ روپے کا بزنس کر چُکی ہے۔
ہالی وُڈ کی بات کریں، تو سال2022 ء کی ٹاپ 20موویز میں اواتار (دی وے آف واٹر)، بلیک پینتھر:ویکینڈا فار ایور، ایوری تھنگ، ایوری ویئرآل ایٹ ونس، مینز: دی رائز آف گرو، جراسک ورلڈ: ڈومینین، دی بین شیز آف انیشرین، فال، دی مینیو، سڈنی، ٹاپ گن: میورِک، تھور:لو اینڈ تھنڈر، مون مَین، لائٹ ایئر، ڈاؤن ٹن ایبے، دی بیٹ مین، بلٹ ٹرین، ایلوس، واٹر گیٹ برج، بلیک آدم اور دی بلیک گائز نے جگہ بنائی۔