• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینجمن فرینکلن نے کہا تھا کہ ’’ اپنے کام سے کام رکھنا حقیقی امریکی منشور ہے‘‘ ۔ اس حقیقی امریکی منشور کو عدم مداخلت کی لبرل پالیسی کہا جاتا تھا۔ امریکہ اعلان آزادی سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک اسی پالیسی پر کاربند رہا ۔ 1898 کی امریکہ اسپین جنگ کے وقت سے اس پالیسی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی جو پہلی جنگ عظیم تک مکمل طور پر تبدیل ہو گئی۔ اس تبدیلی کی داستان نہایت دلچسپ ہے ،اس جنگ کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ امریکہ کا ایک بحری جہاز ہوانا میں ایک حادثے میں تباہ ہو کر سمندر میں ڈوب گیا ۔اس کا الزام اسپین پر لگایا گیا اسپین اس بات کو سمجھتا تھا کہ امریکہ ایک ایسی طاقت بن چکا ہے جس سے بگاڑنا مناسب نہیں ۔ اسپین نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا کہ وہ آئندہ ایسے اقدامات بروئے کار لائے گاکہ دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے ،اس وقت امریکی منصب صدارت پر ریپبلکن پارٹی کے ولیم مکينلی فائز تھے ۔ وہ جنگ سے بچنا چاہ رہے تھے۔وہ عدم مداخلت کی لبرل پالیسی قائم رکھنا چاہتے تھے مگر اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کو اس حوالے سے موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیا کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہے ۔ صدر وليم پر یہ دباؤ ڈالنے میں امریکی میڈیا اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کا ہمنوا تھا ۔ ایسی ایسی خبریں اور تجزیے اخبارات کی زینت بن رہے تھے کہ جن سے پورے ملک میں جنگی فضا قائم ہوگئی ۔ حقائق کو ایسے مسخ کرکے پیش کیا جا رہا تھا کہ حقیقت سات پردوں میں چھپ گئی۔ اس مہم کی قیادت وليم هرسٹ اور جوزف پولٹرز کر رہے تھے ۔ بالآخر اس میڈیا مہم کے آگے امریکی حکومت سرنگوں ہوگئی اور امریکہ کی عدم مداخلت کی لبرل پالیسی کا خاتمہ ہونے لگا، امریکہ نے اسپین کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اس کے بحری جہاز پر حملے کے مجرموں کو سزا دے اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے دیے جائیں ورنہ کیوبا کو خالی کر دیا جائے ۔ اسپین کے پاس ایسی ذلت آمیز دھمکی کے بعد کوئی چارہ کار نہ بچا اور اس نے جنگ کا اعلان کر دیا جو امریکی میڈیا مہم کا اصل ہدف تھا۔ چند ماہ جنگ جاری رہی اسپین کو شکست ہوئی اور اس کے بعد پیرس امن معاہدے کی رو سے اسپین نے کیوبا ، گوام ، فلپائن اور پیرتوریکو کو چھوڑ دیا جو پھر خود امریکی حلقہ اثر میں آگئے اور اس کے بعد پھر امریکی مداخلت کی ایک نہ رکنے والی تاریخ ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ کی بنیادی وجہ جو میڈیا مہم بنی اس ہی سے زرد صحافت کی اصطلاح نے جنم لیا ، ایسی زرد صحافت جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ان گنت واقعات نے جنم لیا۔ایسا نہیں کہ امریکہ میں اس پالیسی کی تبدیلی کے خلاف مزاحمت نہیں کی گئی اور اس کے ذریعے جن خطرات سے امریکہ بذات خود دوچار ہوسکتا تھا ان سے امریکہ کو محفوظ رکھنے کی جدو جہد نہیں کی گئی ۔ امریکہ کو اپنی پالیسی تبدیل نہ کرنے کی غرض سے ایک تنظیم اینٹی امپیریلسٹ لیگ کا قیام عمل میں لانا پڑا ۔ جس میں مارک ٹوون جو بعد میں امریکی نائب صدر بھی رہے ، امریکی معروف کاروباری شخصیت ایڈورڈ ایٹکنسن اور Yele یونیورسٹی کے نامور پروفیسر وليم گراھم سمر جیسےاہم افراد شامل تھے ۔ اس تنظیم نے اپنے منشور کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ امپیریل ازم کی پالیسیاں آزادی سے متصادم ہیں اور فوجی مقاصد رکھتی ہیں، یہ ایک ایسی برائی ہے جو ہماری آزادی کی دشمن ہے‘‘ ۔ ان افراد کا تذکرہ اس لئے کیا کہ معاشرے کا باشعور طبقہ ہمیشہ آنے والے خطرات کو بھانپتا ہے اور اس کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور مخالفت کی پروا نہیں کرتا ۔ پروفیسر وليم گراھم سمر نے اس پالیسی کے امریکہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ وہ کیسے دن ہوں گے جب ہماری موجودہ خوبیاں ختم ہو جائیگی اور ہم ان قدیم زوال پذیر اقوام کی طرح ہو جائیں گے ؟ جنگ، ملکی قرضے، ٹیکسوں کی بھرمار، سیاسی عیاریاں، اپنے دائرہ کار میں وسیع و عریض حکومت ،نمود و نمائش ، بڑی افواج ، شاہانہ اخراجات ،بددیانت سیاست اور امپیریل ازم ‘‘ اور امریکہ ان تمام حالات کا حقیقت میں شکار ہوگیا ہےاور اس کی وجہ یہ بنی کہ حکومت اپوزیشن کا دباؤ تو برداشت کر سکتی تھی مگر زرد صحافت کا دباؤ برداشت کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ اگر ہم وطن عزیز اور اس کے مسائل کا گہرا ئی سے مشاہدہ کریں تو واضح طور پر محسوس ہو گا کہ ہمارے بھی بہت سے مسائل کی وجہ صحافت میں بدعنوانی یا زرد صحافت ہی ہے اور اگر ہم نے اس پر قابو نہ پایا تو معاشرہ تنازعات کا شکار ہو جائے گا، سوشل میڈیا بھی دراصل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی پرچھائیاں لے کر چلتا ہے ۔ اس صورت حال پر قابو پانے سے میری یہ مراد ہرگز نہیں کہ اس میں ریاست کو براہ راست ملوث کیا جائے بلکہ ایسے اہل قلم کوجنہوں نے اپنے نظریات کیلئےجیل کی صعوبتیں برداشت کیں، ان کی مشاورت سے اس مسئلہ کا کوئی حل تجویز کرنا چاہئے ورنہ حقائق کو مسخ کرکےپیش کرنے کا سلسلہ معاشرے کو مزید توڑ پھوڑ کا شکار کردے گا ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین