• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدشہ، امریکہ ہمیں ایک بار پھر افغانستان میں دخل دَر معقولات پر مجبور کرنے کو ہے۔ 2015-18 کے کالم گواہ، امریکہ سی پیک بننے نہیں دے گا جب کہ چین کے لئے سی پیک اس کےخواب کی تعمیرہو گا۔سی پیک منصوبہ پاکستان میں خوشحالی، امن و امان اور سیاسی استحکام کا ضامن بننا تھا ۔نواز شریف حکومت کی جبراً برخاستگی سی پیک کا مکو ٹھپنے کیلئے جزولاینفک تھا۔ سیاسی عدم استحکام کا بیج ہماری اسٹیبلشمنٹ نے تن من دھن سے بویا، آج وطن عزیز تتر بتر ہے۔امریکی اشیر باد موجود کہ پاکستان چین تزویراتی اقتصادی اشتراک کو سبوتاژ کرنا اور پاکستان کوغیر مستحکم رکھناامریکی ایجنڈا ہے۔ امریکی کامیابی ،چین کی ناکامی سے زیادہ وطنی بدقسمتی کا نوحہ ہی تو ہے۔ بد قسمتی جو کچھ لکھا آج حرف بحرف سچ ثابت ہو چکا ۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی دو دن قبل پریس بریفنگ، ’’امریکہ افغانستان میں پاکستانی فوجی کارروائی کی حوصلہ افزائی کرے گا‘‘۔ اس سے پہلے دہشت گردی کی حالیہ لہر پر رانا ثناء اللہ اور وفاقی حکومتی ترجمانوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات، اگر بد نیتی نہ کہیں تو نا سمجھی ضرور بنتی ہے۔ سوشل میڈیا ایک اسکیم کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان منفی جذبات بھڑکا رہا ہے۔کیا پاکستان نیا محا ذ کھولنے جا رہا ہے؟ رَتی برابر شک نہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے بھارتی اورامریکی ایجنسیاں مستعدہیں۔ کون نہیں جانتا کہ افغانستان کی تباہی وبربادی امریکی پروجیکٹ تھا اور ہے۔ القاعدہ کا نام بہانہ بنا،پہلے سے تباہ حال افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔امریکہ ایک لمحےکیلئے بھی اپنے ایجنڈے سے غافل نہیں ہے۔ داعش (ISIS) کو بھی امریکہ اور اسرائیل نے کمال محنت سے پایۂ تکمیل تک پہنچایاتا کہ اس کے قلع قمع کے بہانے شام، عراق پر فضائی اور زمینی کارروائیوں سے تباہی نافذ کی جا سکے۔

مشرف دور میں’’القاعدہ‘‘کے نام پر افغانستان کی جب اینٹ سے اینٹ بجائی گئی تو خواہ مخواہ پاکستان جنگ کا ہراول دستہ بن گیا ۔یہ بات درست کہ آئی ایس آئی نے نا مساعد حالات میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے حتی المقدور کوشش جاری رکھی ۔ یااللّٰہ! مسلم ممالک اور ’’عقائد‘‘کب تک بطور مہرہ و بہانہ استعمال میں رہیں گے۔ کب تک مسلمان اسلام کے نام پر ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہیں گے۔ خوارج کے بارے میں قرآنی احکامات ، احادیث مبارکہ اور اجماع علمائے امت موجود ، ’’کثرتِ رائے سے قائم حکومت کے خلاف متشدد کارروائیاں ، دہشت گردی کو فروغ دینا ،فساد فیِ الارض ہے۔ ایسے فسادیوں کو قتل کرنے کے واضح احکامات موجود ہیں‘‘۔چودہ سو سال سے اسلامی تاریخ بار بار اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔

پونے تین سو سال پہلے ایک برطانوی جاسوس نے اپنی ڈائری مرتب کی تو اس کے خیرہ کن انکشافات وواقعات ششدر کر گئے۔وہ لکھتا ہے’’ وہ اور اس کے ہزاروں جاسوس ساتھی محنت کے باوجود معمولی کامیابی بھی حاصل نہ کر پائیں گے۔ البتہ اگر ہم نے لگن سے یہ کام تسلسل کے ساتھ اگلے دو سو سال تک جاری رکھا تو یقین دلاتا ہوں ،ناقابلِ تسخیر عثمانی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے‘‘۔یہی جاسوس بعد ازاں قرآن و حدیث پر دسترس اورعربی زبا ن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ترکیہ کے ایک گاؤں پہنچا۔مقصد ایک عام مسجد میں امام بننا تھا۔ لہجہ کی کمی بیشی سے نمٹنے کے لئے یہ جاسوس تُرکیہ میں بطور عراقی اور عراق میں بطور تُرک متعارف رہا۔ تُرکیہ کے بعد بصرہ عراق کی مسجد میں بطور موذن انٹری ڈالی۔ قرآن و حدیث پر عبور تھا، جلد ہی امام مسجد بن گیا ۔ مسجد کے امام کی حیثیت سے وقت کے بڑے بڑے علماء تک رسائی ملی۔ انہی دنوں ایک نوجوان عرب دینی تعلیم کے لئے بصرہ عراق پہنچا اور مبلغ بن گیا۔

عرب مبلغ کی علمیت اور شعلہ بیانی نےجاسوس کو بہت متاثر کیا۔ دو دہائیوں بعداس نے اپنے شہر واپس جانے کی ٹھانی تاکہ وہا ں کے مقامی اورموثر قبائلی اکابر کے ساتھ مل کر تجدید احیائے دین کا فریضہ انجام دے۔ برطانوی جاسوس نےعرب مبلغ کی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی کی کہ اس کا تو مقصد ہی مسلمانوں میں انتہا پسند عقائد کو شدت سے نافذ کرنا اوران کی ترویج تھا۔ اپنے علاقے میں پہنچتے ہیعرب مبلغ نے مقامی سطح پرایک مضبوط قبیلے سے معاہدہ کیااور اس کے سربراہ کی مقامی امیر بننے میں مدد کی۔ بمطابق معاہدہ اقتدار کے و سیع ہوتے ہی عرب مبلغ کے عقائد نافذ ہونگے جبکہ انتظامی نظم و نسق اس قبیلےکے پاس رہنا تھا۔شک نہیں کہ عرب مبلغ کے اندر دینی جذبہ اور اخلاص کا ایک سمندر موجزن تھا۔

بیسویں صدی میں برطانوی جاسوس کےمقصد کو آگے بڑھانے میںایک اور برطانوی جاسوس کا نام سب سے نمایاں رہا ، جسے عربی زبان اور اسلامی علوم میں مہارت تھی۔ مسلمان بن کر مسلمان ملکوں میں اثر و رسوخ حاصل کیا۔اس برطانوی جاسوس کو نہ صرف اسلامی علوم بلکہ عربی زبان اور اس کے تمام لہجوں پر غیر معمولی عبور حاصل تھا ۔ مسلمان بن کر صفوں میں گھسا اور غدار ڈھونڈے۔اس جاسوس پر1962میںبرطانیہ میں انگریزی زبان میں ایک فلم بھی بنائی گئی ۔پچھلی صدی کے آغازمیں جب عثمانی سلطنت پر آخری کاری وار لگانے کا وقت آیا، تو سب سے موثر کرداراسی جاسوس نے ادا کیا۔قصہ کوتاہ دو سو سال بعد عثمانی سلطنت کے اختتام کا وقت آن پہنچا تھا۔برطانوی جاسوس نے عصبیت اور مسلکی اختلافات کو اس قدر ہوا دی کہ مسلمان ہی تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر پل پڑے، رہی سہی کسر برطانوی اسلحے نے پوری کر دی،عثمانیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ شک نہیں کہ القاعدہ، طالبان ، داعش قیادت کے اندر اخلاص کی کمی نہیں ہو گی۔۔کیا آج پھر پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے مقابلے لا کھڑا کرنے کی سازش پایۂ تکمیل کے قرب و جوار میں ہے؟

ریاست پاکستان کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ افغانستان میں افغان حکومت کی آمادگی کے بغیر کسی صورت کارروائی نہیں ہو گی ۔شر انگیزی کے مقابلے میں حکمت و تدبر درکار ہے۔

افغان باقی ، کہسار باقی ۔الحکم للہ! الملک للہ!

تازہ ترین