• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی تماشے اور معاشی بھونچال میں اُمید کی کچھ کرنیں نمودار ہوا چاہتی ہیں۔ دہشت گردی اور نوآبادیاتی جبر کے سامنے اس دھرتی کے جیالے سپوت سینہ سپر ہونے لگے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت انگیزی کے خلاف خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں اور شورش زدہ اضلاع میں پختون عوام کا جم غفیرامن کے جھنڈے لئے اُمڈ آیا ہے۔ گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کے شہر وانا میں دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے خلاف جو عظیم الشان عوامی مظاہرہ ہوا وہ پختون عوام کی امن دوست امنگوں کا مظہر ہے۔ اس سے قبل دیگر علاقوں میں بھی ہم اسی طرز کے مظاہرے دیکھ چکے ہیں۔ خوش قسمتی سے یہ مظاہرے کسی ایک تنظیم کے پرچم تلے نہیں، امن کے سفید جھنڈے کے ساتھ کئےگئے، حالانکہ ان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان ہر جگہ ہر اول دستہ کے طور پر موجود تھے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف قابل ستائش اورمضبوط مؤقف اختیار کیا ہے جس کے باعث وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا مصالحتی بیان واپس لینا پڑا ہے لیکن ابھی تک واضح حربی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ عوامی اُبھار کی نئی صورتیں ہمیں بلوچستان کی ساحلی پٹی پر خاص طور پر گوادر کی بندرگاہ میں حقوق دو تحریک کے جاری عوامی مظاہروں کی صورت میں نظر آئی ہیں۔ حق دو تحریک میں عورتیں، بچے، جوان اور بزرگ سب ہی شامل ہیں۔ ان کے گیارہ نکاتی مطالبات پر پہلے بھی مظاہرے ہوئے ہیں اور ان کے تشنہ تکمیل رہنے کے خلاف پھر سے گزشتہ دو ماہ سے زیادہ جلسے جلوس ہوتے رہے لیکن کٹھ پتلی انتظامیہ نے ٹینکر مافیہ، بڑے ا سمگلرز اور کرپٹ اداروں کے دبائو میں کریک ڈائون کا فیصلہ کیا مگر حق دو تحریک دبنے والی نہیں دکھائی دیتی کیونکہ اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے اور یہ وسیع البنیاد ہے۔ اس کے مطالبات میں بڑے بیرونی ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کا سدباب، مقامی ماہی گیروں کے حقوق کا تحفظ، سرحدی تجارت فرنٹیئر کور کی بجائے سول انتظامیہ کے حوالے کرنے، چیک پوسٹوں میں کمی، ایکسپریس وے کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی ، صحت و تعلیم اور روزگار کی مانگیں شامل ہیں۔ کچھ اسی طرح گلگت و بلتستان کے لوگ برفباری کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں اپنے مقامی ذرائع، زمین کے تحفظ ، روزگار اور فرقہ واریت کے خلاف کئی روز سے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جو سب سے زیادہ پچھڑےہوئے تھے، وہ آگے بڑھ کر انسانی و معاشی و سیاسی حقوق اور آزادیوں کیلئےمیدان میں اُتر آئے ہیں اور یہی مظلوم اور جاگے ہوئے لوگ پاکستان کے دوسرے لوگوں کو راہِ نجات دکھائیں گے۔ یہی حقیقی اسٹیک ہولڈرز ہیں جو پاکستان کے حقیقی مالک ہیں لیکن پاکستان پر جن استحصالی طبقوں اور نوآبادیاتی آمرانہ قوتوں کا قبضہ ہے وہ کیوں ان کی آواز سنیں گے؟ اب فیصلہ ریاست کو کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑی ہو؟ دہشت گردی کی چار دہائیوں کی مہم جوئیوں سے جو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہےاس کا جائزہ لینے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا جانا چاہئے اور قومی سلامتی کمیٹی میں جو فیصلے کئے گئے ہیں اُن پر تفصیلی بحث کر کے ایک قومی راہِ عمل طے کرنا ہوگی۔

روشنی کی ایک کرن شاید 9 جنوری کو جنیوا میں منعقد ہونے والی پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ کانفرنس برائے ماحولیاتی بالیدگی (Resilience) ہے جس میں دنیا بھر سے حکومتی اور عالمی اداروں کے نمائندے شریک ہورہے ہیں۔ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی انسانی و قدرتی و ماحولیاتی تباہی کے بعد مصر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں ہماری وزیر ماحولیات محترمہ شیری رحمان کی زبردست سفارت کاری کے باعث عالمی ماحولیاتی فورم کو ماحولیاتی نقصانات و تلافی کے حوالے سے عالمی ذمہ داری کا ادراک کروا دیاگیا ہے۔اب 9 جنوری کو جنیوا میں ہونے والی کانفرنس کی بھرپور تیاری کرلی گئی ہے۔ ایک ماحولیات دوست بحالی و تعمیر نو کا منصوبہ مرتب کرلیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جبکہ بحالی و تعمیر نو کیلئے 16ارب ڈالرز سے زائد رقم درکار ہوگی۔ اس برس 6ارب 78 کروڑ ڈالرز چاہئیں۔ ایمرجنسی ایڈ کی اپیل پر آدھی رقم مل سکی تھی، اگر ڈونرز کی دلچسپی اتنی ہی ہے تو کم از کم 4 ارب ڈالرز بھی مل جائیں تو طوفان میں گھری کشتی باہر نکل سکتی ہے۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے ۔ اُمید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس کا وفد اسلام آباد میں نویں جائزہ کیلئے آئے گا اور معاملات طے ہوسکنے کی قوی امید ہے۔ جونہی یہ ریویو مکمل ہوا تو چین، سعودی عرب، امارات اور قطر سے اربوں ڈالرز کے وعدوں پر عمل کی اُمید کی جاسکے گی اور پاکستان فروری یا مارچ تک مالیاتی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل کر معاشی و مالیاتی استحکام کی جانب بڑھ سکے گا تاہم اگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل ہوا تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 250روپے سے اوپر اور مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو اتحادی حکومت کے گلے میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ کوشش تو کی جارہی ہے کہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہ پڑے لیکن آزاد منڈی میں بلیک مارکیٹ کا چلن حشر نشرکئے ہوئے ہے اور اسے روکنے کیلئے صوبائی حکومتیں کوئی جتن نہیں کررہیں۔

اس دوران اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان تُلے بیٹھے ہیں کہ سیاسی بحران کسی طور سونامی بن جائے اور ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے تو ہو کیونکہ اس کا بوجھ اتحادی حکومت خصوصاً پنجاب میں ن لیگ کے سر پر آن پڑے گا لیکن پنجاب کا کِلا لگتا ہے کہ عمران خان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ان کا زخمی ہرن پنجاب کےشکاری کےہتھے چڑھ گیا ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لینے نہیں جارہے اور ان کا عمران خان سے اسمبلی توڑنے کا وعدہ لاہور ہائیکورٹ میں دئیے گئے حلف نامے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے، کی نذر ہوکے رہ جائے گا تو معاملہ کئی ماہ کیلئے لٹک جائے گا اور پنجاب اسمبلی برقرار رہے گی ، موجودہ اسمبلیاں چلتی رہیں گی اور جیسے تیسے اپنی آئینی مدت کی طرف گھسٹتی چلی جائیں گی۔ ایسے میں عمران خان اپنے استعفے ہوا میں لہرایا کریں، تب تک اگر وہ اسمبلیوں میں واپس نہ گئے تو ان کی نااہلی کے کئی کیس انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ وہ جمہوری سیاست کے وِلن بننے کی بجائے اس کے ہیرو کیوں نہیں بنتے؟ وگرنہ وہ اس پیرانہ سالی میں پلے بوائے بن کے رہ جائیں گے۔

تازہ ترین