• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرشد کے پاس پتہ نہیں کون سا جن ہے اور وہ کیا عملیات کرتے ، وظیفے پڑھتے ہیں کہ انہیں خواب آجاتا ہے کہ ہمارا تازہ موضوع کیا ہوگا؟ جب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں بقول مرشد (جنگجوؤں) نے خیبرپختونخوا کے بعد اسلام آباد کو نشانہ بنایا ہے تو دماغ میں چند سوالات گردش کررہے تھے کہ آخر دہشت گردی کی تازہ لہر کی وجوہات کیا ہیں؟ کون سی ایسی غلطیاں ہوئیں کہ دہشت گرد ایک بار پھرسر اٹھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سے افغان طالبان نے افغانستان کا انتظامی کنٹرول سنبھالا ہے بات وہیں سے شروع ہوگی۔ سوالات کے جوابات بھی انہی کے گرد گھومیں گے جو دوحہ مذاکرات کے سہولت کار بنے،افغانستان میں قیام امن اور پاکستان کے تحفظات کے بارے میں کیا شرائط تسلیم کی گئی تھیں کہ آج افغان و پاکستانی طالبان ہمارے خلاف ایک نظر آتے ہیں۔سوالات ذہن میں گردش ہی کررہے تھے کہ مرشد نے ترکیہ کے دانش وروں اورطلبہ کے ایک گروپ سے آن لائن گفتگو کے دوران تازہ انکشاف کرکے ساری حقیقت ہی کھول کر رکھ دی کہ اصل منصوبہ کیا تھا۔ یقیناً اگر وہ مستقبل میں وزیراعظم بنے تو اس منصوبے پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔ ویسے تو مرشد جب بھی بولتے ہیں توکہتے ہیں کہ معاملات میرے کنٹرول میں نہیں تھے حکومت کوئی اور چلا رہا تھا۔ اب وہ پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر پر طویل خاموشی کے بعد بولے ہیں تو بات سمجھ آرہی ہے کہ حماقت کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ہم سے زیادہ دنیا کو جاننے والے فرماتے ہیں، ”افغان طالبان کا پاکستانی طالبان (کالعدم ٹی ٹی پی ) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کابل پر قبضے کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی طالبان سے کہا کہ وہ واپس پاکستان چلے جائیں۔ وہ بہترین وقت تھا ان سے مذاکرات کرنے کا، تاکہ انہیں دوبارہ آباد کیا جاسکتا۔ میری حکومت ان سے رابطے میں تھی، چالیس ہزار افراد واپس آرہے تھے جن میں پانچ سے دس ہزار جنگجو اور ان کے خاندان بھی شامل تھے لیکن مجھ سے مذاکرات کا اختیار واپس لے لیا گیا اور نئی حکومت نے افغانستان سے واپس آنے والے طالبان کی آباد کاری پر توجہ نہ دی۔ اسی لئے اب پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر موجود ہے۔ اس پر قابو پانا ہوگا۔ اس حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی درست نہیں تھی۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان (کالعدم ٹی ٹی پی ) میں فرق کرنا چاہئے۔ افغان طالبان کا پاکستانی طالبان سے ویسا رابطہ نہیں تھا، جب میری حکومت گرائی گئی اس کے بعد پاکستانی طالبان کو دوبارہ ابھرنے کا موقع مل گیا۔‘‘مرشد کے مریدین کو اب یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ کچھ ایسا ہی اس معاملے میں ہواہے کہ حماقتیں در حماقتیں فرمائی جارہی ہیں ، مرشد کو کون سمجھائے کہ حضور !آپ کی درفطنیاں ہمارے گلے پڑ چکی ہیں۔ معیشت کی بربادی کے بعد اب وہی کالعدم ٹی ٹی پی (پاکستانی طالبان) دہشت گرد جنہیں آپ نے جیلوں سے راتوں رات رہا کیا تھا، ہمارے لئے مصیبت بن چکے ہیں اور آپ خود ہی تصدیق کررہے ہیں کہ انہیں پاکستان میں آباد کرنے کیلئے آپ نے کیا کچھ کیا۔ انہیں خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا گیا، پھر انہی قیدیوں نے باہرنکل کر خیبرپختونخوا حکومت، انتظامیہ، سیاست دانوں اور عام شہریوں سے بھتہ خوری ، تاوان کی شکل میں کروڑوں روپے وصول کرکے مالی معاونت حاصل کی اور اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ سے مضبوط بنایا۔ اس راز سے بھی پردہ اٹھنا چاہئے کہ ہماری سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت کو افغانستان کس طرح کھوکھلا کرکے ہم پر حاوی ہو رہا ہے۔ افغان امور پر ہماری اتنی دسترس نہیں جتنا کہ مرشد جانتے ہیں لیکن ان کے تاز ہ ارشاد کی روشنی میں یہ سوال تو ضرور پوچھنا بنتا ہے کہ اگر مرشد کی تجویز کے مطابق پانچ سے دس ہزار جنگجو پاکستان میں بآسانی آنے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر کیا حشر ہوتا؟ آپ عالمی سیاسیات و معاشیات کے’’ ارسطو ‘‘ہی سہی لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ افغانستان اس وقت عالمی گریٹ گیم کا گڑھ بن چکا ہے اور یہ ساری سازش پاکستان کیخلاف بُنی جارہی ہے۔ امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان میں جو جدید ترین اسلحہ چھوڑ کر گئی تھیں آج یہ اسلحہ افغان و پاکستانی طالبان کے علاوہ جنگجوؤں کے مختلف گروہوں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ اسلحہ دہشت گردی کے موجودہ واقعات میں استعمال ہورہا ہے۔ اس سازشی تھیوری کی داستان بہت طویل ہے۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے توسمجھ جائے کہ یہ گریٹ گیم کسی اور کے خلاف نہیں صرف پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے ہے۔مذکورہ بالا تحریر کو اس پس منظر میں پڑھیں تو گریٹ گیم اور اس کے کرداروں کی حرکات و سکنات سب سمجھ میں آجائیں گی کہ ہمارے ساتھ ہاتھ کس نے کیا؟ مودی کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا اور پھر آناً فاناً طالبان کا افغانستان میں انتظامی کنٹرول سنبھالنا اور امریکی ونیٹو افواج کا جدید ترین اسلحہ ، گولہ بارود کا ڈھیر، جنگی سازو سامان افغان جنگجوؤں کیلئے کھلا چھوڑ کر اچانک چلے جانا اور اس اسلحے کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں استعمال ہونا اور ان واقعات کا ایسے وقت میں اچانک شدت اختیار کرجانا کہ دنیا میں ہم کنگال و تنہا کھڑے ہیں، کوئی ملک یا عالمی ادارہ ہمیں مالی و اخلاقی سہارا دینے کو تیار نہیں۔ یہ گریٹ گیم نہیں تو کیا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین