• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقتدرہ قومی زبان اور احمد مرزا جمیل...آن دا ریکارڈ۔۔۔۔۔جبار مرزا

جنرل ضیاء الحق اردو کی ترویج، نفاذ اور فروغ چاہتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے ایک ادارہ ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ (National Language Authority) اکتوبر 1979ء میں آئین پاکستان کی دفعہ (1)251 کے مقاصد کی بجاآوری کے لئے قائم کرکے ممتاز محقق، ادیب اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کو اس کا سربراہ بنایا تھا جسے صدر نشین کہا جاتا ہے، ادارے کا پہلا دفتر کراچی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب کے گھر میں ہی تھا، ادارے کے قیام کا مقصد اردو کو پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے سرکاری دفاتر میں اس کا نفاذ اولین ترجیح تھی۔ کاروبار حکومت کے تین چوتھائی امور اردو میں انجام دینا قرار پائے تھے۔ کابینہ میں خلاصے، ایجنڈے اور رودادیں اردو میں پیش کرنا طے پایا تھا، ایوان صدر نے اپنے تمام امور اردو میں انجام دے کر مثال قائم کرنی تھی، سیکریٹریٹ کے تمام امور کی انجام دہی اردو میں ہونا تھی مگر ہوا کیا کہ ملک کے کسی بھی ادارے میں اردو کا نفاذ نہ ہو سکا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو ترجمہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم سے حال ہی میں شروع ہوا ہے، مقتدرہ قومی زبان کے قیام کو چونتیس برس بیت گئے اس دوران اردو کے نامی گرامی شاعر ادیب اور محقق اس کے سربراہ رہے جن میں ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر جمیل جالبی ، افتخار عارف اور پروفیسر فتح محمد ملک کے علاوہ ڈاکٹر انوار احمد جبکہ قائم مقام میجر آفتاب حسن بھی شامل ہیں۔
دنیا میں اس وقت قریب قریب چھ ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو کا تیسرا نمبر ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کی کارکردگی اور کامیابیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس نے اتنے طویل سفر کے بعد دو کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔2012ء تک یہ کیبنٹ ڈویژن کا ذیلی ادارہ تھا جبکہ دسمبر 2012ء سے اس کی خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے ماتحت کردیا گیا ہے ادارے کا سربراہ اب ڈائریکٹر جنرل کہلاتا ہے جبکہ دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ ادارے کا نام ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ سے بدل کر ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ رکھ دیا گیا ہے بعض بچوں کی صحت ٹھیک نہیں رہتی یا دل لگا کر پڑھتے نہیں، سستی اور کاہلی ان پر چھائی رہتی ہے تو والدین ایسے بچوں کا نام یہ کہہ کر بدل دیتے ہیں کہ وہ ’’بھاری‘‘ تھا۔ مقتدرہ قومی زبان بھی ایک بھاری نام ثابت ہوا ہے جبھی چونتیس برسوں میں اردو نافذ نہ ہو سکی اور اگر نام بدلنے سے زبان فروغ پا جائے تو اتنا بھی غنیمت ہے، مقتدرہ قومی زبان کے نامہ اعمال میں ایک ایسا کارنامہ بھی درج ہے جو اس نے انجام ہی نہیں دیا جس کے بارے میں اس کے پہلے سربراہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے 6؍دسمبر 1980ء کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھرّائی ہوئی آواز اور ڈبڈباتی آنکھوں سے کہا تھا کہ ’’مقتدرہ کے پاس وسائل تھے اور نہ ہی آدمی، یہ ان لوگوں کی فراخدلی ہے کہ انہوں نے اس عظیم کام کو مقتدرہ کے پلیٹ فارم سے پیش کیا ’’لیکن مقتدرہ نے کبھی مڑ کے اپنے اس محسن کو پوچھا تک نہیں، کسی تقریب یا کانفرنس میں نہیں بلایا، محکمہ تعلیم ، وفاقی وزارت اطلاعات ونشریات یا اکیڈمی آف لیٹرز، کسی نے بھی اس شخص کو کبھی یاد نہیں کیا جس نے دھیرے دھیرے ناپید ہوتی اور سسکتی اردو کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچادیا ہے، دنیا کی تیسری بڑی زبان اردو جو کاتبوں کے گھٹنوں پر کلبلاتی رہتی تھی اسے کمپیوٹر کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا، وہ احمد مرزا جمیل ہیں جن کے بارے میں جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ ’’احمد مرزا جمیل نے تاریخ میں اپنا نام محفوظ کرلیا ہے اردو کے لئے اس سے بڑا کوئی کارنامہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی، پشاور یونیورسٹی نے سپاس خیبر دی۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ احمد مرزا جمیل کا ہم پر احسان ہے، احمد ندیم قاسمی نے کہا احمد مرزا جمیل نے نسلوں پر احسان کیا ہے، حفیظ جالندھری نے قابل قدر کارنامہ کہا جبکہ پروفیسر اشتیاق اظہر نے کہا تھا کہ احمد مرزا جمیل کو نشان امتیاز ملنا چاہئے لیکن حکومت پاکستان نے 14؍ اگست 1982ء کو صدارتی اعزازات کی فہرست میں درج سب سے نچلا اعزاز ’’تمغہ امتیاز‘‘ دیتے وقت احمد مرزا جمیل کو اردو زبان کے عظیم محسن کے خطاب سے نوازا اور ان کے کارنامے کو قومی اہمیت کی ایجاد کہا تھا۔احمد مرزا جمیل نوری نستعلیق کے موجد ہیں اردو کا یہ واحد خط تھا جسے چھپائی کے لئے ہاتھ سے کتابت کیا جاتا تھا۔ اخبارات میں درجنوں کاتب قطار اندر قطار گھٹنوں پر کاغذ رکھے خبریں لکھا کرتے تھے، کتابوں کی لکھائی اور چھپائی پر برسوں مہینوں لگ جایا کرتے تھے۔ 1773ء سے اردو کو مشینی دور میں داخل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوچکی تھیں۔ حیدرآباد دکن کے نواب نے 1939ء میں کہہ دیا تھا کہ نستعلیق کا اردو ٹائپ نہیں بن سکتا لیکن احمد مرزا جمیل نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا انہوں نے اپنے والد گرامی کے نام مرزا نور احمد کی مناسبت سے اردو نستعلیق کو نوری نستعلیق کا نام دے کر کمپیوٹر سے کتابت کا آغاز کیا۔ نوری نستعلیق رسم الخط کو ایک ہی جست میں اردو زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف اول میں لاکھڑا کیا۔
احمد مرزا جمیل کا گھریلو نام مرزا جمیل احمد تھا مگر شعور کی منزلوں کو پہنچے تو انہیں گوارہ نہ ہوا کہ نبی آخری الزماں حضرت احمد مجتبیٰؐ کا نام نامی ان کے نام کے بعد آئے اس لئے احمد کو اپنے نام سے پہلے لگا کر احمد مرزا جمیل ہوگئے۔ وہ 21فروری 1921ء کو دہلی کے محلہ چتلی قبر کے ایک حصے اعظم خان حویلی میں پیدا ہوئے پانچ سال کی عمر میں والدین کے ساتھ بمبئی چلے گئے۔ جے جے اسکول آف آرٹ سے تعلیم مکمل کی 1943ء میں آل انڈیا آرٹ اینڈ انڈسٹری کا اعلیٰ ترین ایوارڈ پایا پھر کلکتہ چلے گئے ملکہ ترنم نورجہاں اور دلیپ کمار کی فلم جگنو کا ٹائٹل تیار کیا۔ پاکستان بنا تو ہجرت کی راولپنڈی چکلالہ پھرلاہور اور آخرکار کراچی جابسے۔ مرزا صاحب کے بڑے بھائی پورٹریٹ پینٹنگ کے ماہر استاد بنے سرکاری دفاتر میں آویزاں قائداظمؒ کی پینٹنگ منظور احمد کی بنائی ہوئی ہے، آپ کے دادا مرزا یٰسین بیگ حافظ قرآن اور صاحب ادراک دانشور تھے۔ دہلی کے علمی و ادبی حلقوں میں ان کا بہت احترام تھا۔احمد مرزا جمیل کے والد مرزا نور احمد اپنے دور کی بے مثال طغریٰ نویس، نقاش ، مصور اور شوقیہ خوش نویس بھی تھے وہ قرآن حکیم کی کتابت کرکے چھاپنا چاہتے تھے۔ جنوری تا جون 1966ء تک ابھی9 سیپاروں کی ہی کتابت کرپائے تھے کہ بیمار پڑگئے پھر 19نومبر 1966ء کو وفات پاگئے یوں پھر ان کی خواہش احمد مرزا جمیل اور ان کے چچا مرزا مقبول نے یوں پوری کی کہ کتابت شدہ 154 صفحات میں سے ایک ایک لفظ اور حرف کا عکس لے کر ایک ایک سطر ترتیب دے کر باقی اکیس سیپاروں کے 391 صفحات مکمل کرائے، اس سلسلے میں ممتاز صحافی سلمیٰ رضا کے والد منشی رضا حسین نے چودہ برس صرف کئے۔ اس طرح وہ قرآن پاک منصئہ شہود پر آیا جس کا ایک نسخہ میری لائبریری میں بھی محفوظ ہے۔
احمد مرزا جمیل اس وقت بانوے برس کے ہیں ان کی شادی 21؍اگست 1949ء کو کراچی میں ہوئی ان کی بیگم بانو جمیل اب پچاسی برس کی ہیں، مرزا صاحب نے نوری نستعلیق کی ایجاد سے حرف و قرطاس کی بصری رعنائی پر مشتمل جو انقلاب آفرین باب رقم کیا ہے اس کی کہانی بہت طویل ہے۔ کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے المختصر احمد جمیل مرزا کو دنیا گھومنے کا شوق ہے۔ 1979ء میں انہوں نے سنگاپور کی ایک بین الاقوامی نمائش میں دیکھا کہ کمپیوٹر پر ایک لڑکی چینی زبان ٹائپ کررہی ہے سامنے ایک بہت بڑا KEY BOARD جس پر سات آٹھ سو حروف تھے وہ بار بار اٹھ اٹھ کر ٹائپ کررہی تھی۔ مرزا صاحب نے سوچا چینی زبان جس کے ALPHABET ہی نہیں ہیں وہ اگر کمپوٹر پر آسکتی ہے تو اردو کے تو صرف چالیس حروف ہیں، اپنے دیرینہ دوست سید مطلوب الحسن سے بات کی جن کا پرنٹنگ کی دنیا کا وسیع تجربہ تھا وہ قائداعظم کے سیکرٹری بھی رہے، ارشاد نامی کاتب کی خدمات حاصل کرکے مختلف لفظوں کے 164 ترسیمے (LIGATUREs) بنانے میں مدد لی۔ 1980ء میں لندن کی IPEX کی نمائش میں نمونے دکھائے وطن واپسی پر مقتدرہ کے اس وقت کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جو جنرل ضیاء الحق کے استاد بھی تھے سے کہا گیا کہ وہ ضیاء صاحب کو اس کامیابی سے آگاہ کریں اور کم از کم دس مشینوں (ٹائپ سیٹنگ لیزر یونٹ) کی برآمد پر ڈیوٹی معاف کرادیں، جنرل ضیاء الحق نے تعاون تو کیا مگر حالات کا جائزہ لینے کے لئے کرنل زیڈ اے سلہری کو برطانیہ بھجوا کر معلومات بھی لیں۔ جب سارے معاملات طے پاگئے تو اب مسئلہ ٹائپ سیٹنگ میں ایک خط کا تھا جب کہ کاتب مختلف استادوں کے سدھائے ہوئے تھے احمد جمیل مرزا مصور اور آرٹسٹ تو تھے مگر کتابت ان کا شعبہ نہ تھا باوجود اس کے انہوں نے ساٹھ سال کی عمر میں چھ ماہ تک روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرکے 10x10 انچ کے بیس ہزار ترسیمے جو تقریباً ڈھائی لاکھ الفاظ پر مشتمل تھے خود کتابت کرکے اپنے خط کو دنیا بھر میں رائج کرادیا یوں اردو کو ڈیجیٹائزنگ کے ذریعے کمپیوٹر کے حافظے میں محفوظ کیا اور ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ کوئی ٹیکنالوجی یا ایجاد مشرق سے مغرب کی طرف گئی ہے۔
تازہ ترین