• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجدد طب یونانی شہید حکیم محمد سعید ؒ نے اپنی زندگی میں بے شمار مختلف اہمیت کے کام سر انجام دیے ہیں۔ جن میں مہارت ، ندرت اور جدت نظر آتی ہے۔ خاص طور پر صحت، تعلیم، بچوں کی تربیت، نوجوانوں کی ذہن سازی اور انسانیت کی خدمت چند خاص موضوعات ہیں جن پر علیحدہ علیحدہ کتب تحریر کی گئی ہیں اور انشاء اللہ کی جاتی رہیں گی۔

میں ان تمام کارہائے نمایاں میں سے صرف طب یونانی کو اپنا موضوع بناکر اگر حکیم صاحب کی خدمات کا جائزہ لیتا ہوں تو وہ مجھے مجدد طب نظر آتے ہیں۔آپ نے طب یونانی میں صدیوں سے رائج طور طریقوں کو اسی طرز سے نہیں اپنایا بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان میں تبدیلی یا اصلاح فرمائی۔

سب سے نمایاں تبدیلی بلکہ اسے انقلابی تبدیلی کہنا غلط نہ ہوگا جو ادارۂ ہمدرد کے ذریعہ دوا سازی کے شعبہ میں آئی جسے پاکستان میں سب سے پہلے حکیم محمد سعید نے رائج فرمایا۔جس کے تحت طب یونانی کی اور بڑے پیمانہ پر صاف ستھرے طریقہ پر G.M.Iکے اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مشینوں سے تیار کردہ اور انہیں سربہ مہر کرکے جدید مارکٹنگ کے طریقوں پر فروخت کیا جائے۔ اس سے قبل تقریباً ہر طبیب کو دواسازی کا انتظام خود کرنا پڑتا تھا جس کے لیے سرمایہ ، جگہ اور اسٹاف کی ضرورت ہوتی تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انتظامات دشوار ہوتے جارہے تھے۔

طب یونانی میں جدید ریسرچ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اتحاد ثلاثہ قائم فرمایا۔ یعنی طبیب، ایلوپیتھ اور فارمسسٹ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ایک دوسرے کی مہارت سے فائدہ اٹھائیں اور خامیوں کو رفع کریں۔ آپ کے اس اقدام سے طب یونانی کے نظریات اور ادویہ کو سائنسی کسوٹی پرپرکھنے میں بڑی مدد ملی نیز اطبا جدید سائنسی ریسرچر کو سمجھنے اور اپنانے میں کامیاب ہوسکے۔

حکیم محمد سعیدصاحب کی شخصیت میں ایک کمال مجھے یہ بھی نظر آیا کہ حکیم صاحب علاج معالجہ اور تصنیف و تالیف دونوں میں ایک ساتھ مہارت رکھتے تھے۔ جہاں آپ نے لاکھوں مریضوں کا علاج کرکے عالمی شہرت پائی اسی طرح سے تصنیف و تالیف میں بھی ہزاروں صفحات تحریر فرمائے جو طلبا و اطبا، محققین کی رہنمائی کاذریعہ بن رہے ہیں۔ اگر تاریخ طب پر نظر ڈالی جائے تو عموماً اطباء نے یا تو تصنیف و تالیف کو اپنایا یا علالج و معالجہ کو اختیار کرکے شہرت پائی۔

حکیم صاحب نے اندازِ مطب میں بھی جدت و انفرادیت پیدا فرمائی اور مفردات و مرکبات دونوں سے علاج پر عبور حاصل کیا۔ جہاں آپ نے گھر اور باورچی خانہ میں پائی جانے والی اشیاء مثلاً پان، پودینہ سبز، ادرک تازہ سے وجع القلب Angina Pectorisاہم مرض کا علاج فرمایا۔ وہیں مرکب ادویہ کے شاہکار نسخے بھی تجویز فرمائے جو آپ کی کتاب ’’تجربات طبیب‘‘ میں محفوظ ہیں۔ وگرنہ یا تو لکھنو کے انداز مطب کو اختیار کرکے مفردات سے علاج میں مہارت حاصل کرتے تھے یا دہلی کے انداز مطب کو اختیار کرکے مرکبات سے علاج میں ماہر ہوتے تھے۔

شہید حکیم محمد سعید کی اس منفرد فکر تجدیدی کاوشوں کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستان میں سینکڑوں دواساز ادارے اور درجنوں تعلیمی مراکز قائم ہوچکے ہیں ۔جس کی وجہ سے آج طب یونانی میں نمایاں انقلابی تبدیلیاں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

جانے والے نے تو نقش کف پا چھوڑے ہیں

دیکھنا یہ ہے کہ اس راہ پہ کون آتا ہے