• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں بلدیاتی انتخابات تیسری مرتبہ موخر ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ پہلی اور دوسری مرتبہ پیپلز پارٹی کی بالکل بھی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے۔ پی پی پی کو احساس ہوا کہ ان کا "کراچی پہ راج خطرے میں" ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جماعت اسلامی یا کئی جماعتوں کا الحاق اس "سونے کی چڑیا" کو اپنے تسلط میں لے لئے۔پھر پی پی پی کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی کہ آیا ایسا کیا کیا جائے کہ کراچی کے عوام ہماری طرف متوجہ ہوجائیں۔ کچھ عرصے قبل کراچی میں وفاقی حکومت کی طرف سے گرین بس کا بڑی پس و پیش کے بعد افتتاح کیا گیا تھا اور اس کو عوامی پذیرائی حاصل ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نام پہ چنگچی رکشہ تھے۔ جو کہ پی پی پی حکومت کی ایجاد تھی۔ جن کی بدولت عوام آئے دن مختلف حادثات کا شکار ہوکر معذور ہوتے رہتے تھے یا رب کے حضور پیش ہوجاتے تھے۔کیوں کہ یہ چنگچی رکشے موٹر سائیکل کو کاٹ کر بنائے جاتے تھے اور کسی بھی وقت غیر متوازن dis-balance ہوکر الٹ جاتے تھے۔ زیادہ تنقید ہوئی تو مشرف دور کی شاندار پیشکش "صدارتی رکشہ اسکیم" کو "ماڈرن چنگچی" بلکہ معاف کیجئے گا "اسمارٹ چنگچی"( آج کل ہر جدید/ماڈرن کی جگہ اسمارٹ کا استعمال فیشن میں ہے) میں تبدیل کردیا گیا۔ یعنی سب بسیں منی بسیں ختم کرکے چنگچی رکشوں کی بہار (اسمارٹ موڈ آف ٹرانسپورٹ/smart mode of transport ) کردی گئی۔ بیس بائیس سالوں بعد گرین بس دیکھ کر کراچی والے خوش ہوگئے اور پی پی پی کو والوں کو ایک قیمتی خیال/ آئیڈیا دے گئے کہ بس پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر چنگچی رکشہ نہیں بسیں چلائی جائیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز بس سروس کے نام سے کئی روٹس پر بسیں چلائی جارہی ہیں۔ 9 روٹ تک تو دیکھا جاچکا ہے۔ یقینا دیر سے سہی مگر درست قدم اٹھایا گیا ہے۔ دعا ہے کہ یہ سلسلہ رکے نہیں۔ پیپلز بس ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بے ہنگم بنے ہوئے سارے اسپیڈ بریکرز توڑ کر سڑکوں کو استوار کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف اسپیڈ بریکرز کا خاتمہ تو دوسری طرف سڑکوں کی استرکاری، کراچی والے حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا۔ یقینا یہ ان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے، بس ایک مسئلہ ہے کہ ان بسوں کا روٹ تو معلوم ہے کہ یہاں سے وہاں تک چلیں گی، لیکن ان کے بس اسٹاپس کا تعین نہیں کیا گیا ہے نہ دورانیے کا۔ لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ایک بس آنے کے بعد دوسری بس کتنی دیر کے بعد آئے گی، اور کہاں بس روکے گی، کس جگہ کھڑا ہوکر اس کا انتظار کرنا ہے، ہاتھ دکھا کر بسیں روکی جاتی ہیں۔اسی طرح بلدیاتی انتخابات کے سے پہلے موجودہ شہری حکومت نے سڑکوں (اہم شاہراہوں )کی استرکاری شروع کردی، اور اب تیسری بار دی گئی انتخابات کے قریب آتے ہی "خاکروبوں کی فوج" نظر آنا شروع ہوگئی، اور کچرے کے ڈھیر کراچی کی صفائی ہونا شروع ہوگئی۔ پتا نہیں یہ صفائی کرنے والے کہاں چھپے ہوئے تھے۔ امید ہے کہ الیکشن کے بعد بھی یہ نظر آتے اور کام کرتے دکھائی دیتے رہیں گے بھوت نہیں بنیں گے۔اب چونکہ پی پی پی والے اپنی کارکردگی سے خود مطمئن ہوچکے ہیں تو ان کی جانب سے انتخابات ملتوی کروانے کے اشارے نہیں آرہے ہیں۔ لیکن شاید یہ کام اب ایم کیو ایم کے متفرق گروپس کو سونپ دیا گیا ہے۔ تیاری سیاسی جماعتیں خود نہ کریں اور انتخابات کے نتائج سے خوفزدہ ہوکر اس کے التواء کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کیا بلدیاتی انتخابات صرف نشستیں جیتنے کے لئے ہی کروائے جاتے ہیں؟ کامیاب ہوجائیں تو چین کی نیند سوتے رہیں۔ پھر جب مدت پوری ہوجائے ، تو نگران سیٹ اپ کیا جائے اور اس کو طول دی جائے۔ جب تک دوبارہ انتخابات میں جیتنے کے امکانات روشن نہ ہوجائے۔ یہ ایڈہاک ازم آخر کب تک چلے گا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین