• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے شہر سکھر میں سستے آٹے کے اسٹالز پر دو روز میں دو ڈکیتیاں ہو ئی ہیں۔پبلک اسکول کے قریب آٹے کے عارضی اسٹال پر دو روز میں دوسری ڈکیتی ہوئی، ایک واردات میں تین’’ڈاکو‘‘ آٹے کے اسٹال سے پینتالیس ہزار لوٹ کر فرار ہوئے جب کہ دوسری واردات میں آٹھ ملزم آٹے کے بیس تھیلے چھین کر لے گئے۔ ان سنگین نوعیت کی وارداتوں کی اطلاع تحریری طور پر ڈی جی فوڈ کو دی گئی ہے۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ اب آٹے کے ہر اسٹال پر ایک پولیس اہلکار تعینات کیا جائے گا۔

حکومت پنجاب کہیں کہیں چھاپے مار کر ذخیرہ شدہ گندم برآمد کرتی ہے لیکن سرِ دست سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود آٹے کی قیمتیں کیوں بڑھتی جارہی ہیں؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ بعض شہروں میں اگرچہ سرکاری نرخ پر آٹا مل رہا ہے لیکن آٹا لینے والوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔یہ خوف کہ آٹا مہنگا ہوجائے گا لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آٹا خریدنے پر مجبور کررہا ہے۔حکومت کی طرف سے عوام کی کوئی رہنمائی نہیں کی جارہی۔ سیلاب کی آمد سے قبل ہی سندھ اور پنجاب میں گندم کی فصل اٹھائی جاچکی تھی لیکن پھر بھی ملک میں گندم کا بحران کنٹرول سے باہر ہے۔جب ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہا ہے تو گندم کو کون روکے گا؟

کس قدر ظلم اور جبر کا دور آگیا ہے کہ پہلے عام لوگ ،جو پاکستان میں اٹھارہ کروڑ سے زیادہ ہیں، اپنےبچوں کا پیٹ پالنے کیلئے محنت کرتے تھے تا کہ انہیں دو وقت کی روٹی کھلاسکیں لیکن اب ان کی مشقت مزید بڑھ گئی ہے، وہ صبح چھ سات بجے گھر سے نکلتے ہیںاور رات دس بارہ بجے واپس لوٹتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو صبح کا ناشتہ اور رات کی دو روٹیاں ہی کھلاسکتے ہیں وہ بھی کم لوگ کیونکہ آٹا ایک سو ستر روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے ۔ وزیر اعظم نے پنجاب میں آٹے کے بحران کا ذمہ دار پرویز الٰہی حکومت کوٹھہرایا ہے ۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا غلط نہیں کہ دو وقت کی روٹی کے لئے پہلی شہادت سندھ کے شہر میرپورخاص میں ہو گئی۔76 رکنی کابینہ ایک آٹے کا تھیلا نہ دے سکی۔

یہ بھی درست ہے کہ اپنے کپڑے بیچ کر آٹا دلانے کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں نے اپنے اور اپنے کنبے، قبیلے اور خاندان و اتحادیوں کے سنگین کرپشن کیسز تو معاف کرالئے ہیں لیکن مہنگائی کا بدترین طوفان لاکر قوم کو بیچ منجدھار میں تنہاچھوڑ دیا ہے ۔ حکمرانوں کو بس اس بات کی فکر کھائے جارہی ہے کہ عدالتی مفرور کو کس طرح بیرون ملک سےایک ہیرو بناکر واپس لایا جائے اورراج سنگھاسن پر بٹھایا جائے ۔ عوام جائیں بھاڑ میں،عوام تو کبھی ،کسی بھی حکمران کی پہلی ترجیح نہیں رہے ۔یہاں باریاں لگانے والے اقتدار کے حریصوں نے جو اقتدار میں صرف کرپشن کرنے آتے ہیں،ہمیشہ عوام کا بدترین معاشی استحصال کیا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لوگوں نے ڈاکوؤں کا روپ دھار کر دس ،بیس کلو کے آٹے کے تھیلے چھیننا شروع کردیے ہیں جب کہ ایک سے دوسرے ضلع میں اپنی پیدا کردہ گندم لانے والوں کو گندم اور آٹے کا ا سمگلر ظاہر کرکے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کئے جارہے ہیں حالانکہ بعض لوگ اپنے گاؤں سے اپنی ہی گندم یا آٹا اپنے شہراپنی ضرورت کیلئے لاتے ہیں، اس پر بھی پابندی سرا سر ظلم کے مترادف ہے۔ یہاں ہمارے حکمرانوں کے اعصاب پر صرف ایک ہی شخص سوار ہے جو رات دن انہیں ڈرا رہا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح پنجاب میں بھی انہیں اقتدار ملے اور ان کی ستائیس کلو میٹر راجدھانی کے اندر گھٹی ہوئی سانس بحال ہوسکے اورآئندہ الیکشن میں پنجاب کا تخت حاصل ہو لیکن عوام ایسا کرنے نہیں دے رہے۔ حکمران مہنگائی کاسارا ملبہ سابق حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دلوانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو قومی سطح پر قومی سرکاری ٹی وی پر سابق دور کے وزیر خزانہ اور اب کے وزیر خزانہ کو بٹھاکر اعداد وشمار کی روشنی میں مناظرہ کروالیا جائے تاکہ قوم کو بھی پتہ چل سکے کہ کس کی غلطی ہے اور انہیں مہنگائی کے عفریت کے حوالے کس نے کیا ہے؟

کون نہیں جانتا کہ ایک معروف سیاسی تحریک میں جس کے ستاروں کو اسٹیبلشمنٹ نے ہی جمع کیا تھا، نے بھٹوکی کردار کشی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن بھٹو کو عروج ملا اور وہ قائد عوام قرار پائے ، بے نظیر بھٹو کی بھی ایک معروف سیاسی اتحاد نے وہ کردار کشی کی کہ الامان! لیکن نتیجہ وہی نکلا کہ وہ سرخرو ہوئیں اور دخترِ مشرق کا خطاب پاکر عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اب عمران خان کیخلاف بھی ویسا ہی طریقہ استعمال کیا جارہا ہے لیکن عوام ان کے خلاف نہیں ہیں۔ آج کے اتحادی کل ایک دوسرے کیخلاف کیا ایجنڈا لے کر عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں گے اور عمران کو کتنا برا بھلا کہیں گے؟ کیا ان کے دامن میں عوام کے لئے کوئی پھول بھی ہےیاپھر صرف عوام کی راہ میں بچھانے کے لئےکانٹے ہی ہیں ؟

شادیانے اس بات پر بجائے جارہے ہیں کہ آٹھ ارب کا قرض اور دو ارب کی عالمی امداد ملی ہے۔خوب مزے اڑائیں گے۔اب تک لاکھوں لوگ بچوں سمیت سیلاب زدہ علاقوں کے کنارے بے یار و مددگار پڑے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ اس امداد کا بھی استعمال اگر درست نہ ہوا اور کاغذوں میں بھر پور امداد کا ڈرامہ رچایا گیا تو موت لاکھوں لوگوں کو اپنا شکار بناسکتی ہے۔

تازہ ترین