مفتی محمد طاہر مکی
یارِغار ومزار،خلیفۂ رسولؐ، سیدنا صدیق اکبر ؓ کے القاب صدیق وعتیق، والد کا نام عثمان اورکنیت ابوقحافہ تھی۔ والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر تھی۔ آپ کی ولادت واقعہ فیل کے بعد ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ کاعرب کے اہم تاجروں میں شمار ہوتا تھا،ازل سے ہی سلیم الفطرت، شراب نوشی اور بت پرستی سے سخت نفرت کرتے تھے۔
آپ کا اور محمد عربی ﷺ کا تعلق دیرینہ تھا،اسلام لانے کے بعد یہ تعلق رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اتنا گہرا ہو گیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ کوئی دن ایسا ہم پر نہیں گزرا کہ رسول اللہ ﷺ صبح وشام ہمارے گھر نہ آئے ہوں۔آنحضرت ﷺ پر جب پہلی وحی آئی،اس وقت آپ تجارت کی غرض سے یمن گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو پتا چلا کہ آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا ہے، بس سیدھے گئے اور اسلام قبول کرلیا، مردوں میں سب سے پہلے صدیق اکبرؓ، عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ،کم سِن افراد میں حضرت علی المرتضیؓاور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ ؓ اسلام لے آئے۔ ابتدائے اسلام میں مکہ میں آپ ﷺ کے پاس مسلمانوں کی تعداد 39 تھی تو حضرت صدیق اکبر ؓ کے اصرار پر کہ یارسول اللہ ﷺ اب اسلام کا علیٰ الاعلان اعلان کردیا جائے، یہ کہہ کر بیت اللہ میں آگئے اورصدیق اکبرؓ دین اسلام کی تبلیغ کرنے کھڑے ہوگئے، اتنے میں مشرکین مکہ کو خبر ہوئی وہ آئے اور مسلمانوں کو زدوکوب کیا۔
عتبہ بن ربیع نے صدیق اکبر ؓ کو اتنا مارا کہ آپ کی ناک چہرے سے چمٹ گئی، بنو تیم جو کہ صدیق اکبر کے قبیلے کے ہی لوگ تھے، انہیں علم ہوا تو وہ بیت اللہ کی جانب دوڑے آئے، مشرکین کو وہاں سے ہٹاکر صدیق اکبر ؓ کو گھر لے گئے،انہیں اب صدیق اکبر ؓ کی حالت دیکھ کر موت میں کوئی شک باقی نہ رہا،کیوںکہ اس قدر تشددکے بعد وہ بے ہوش پڑے تھے،لیکن قربان جائیے ’’سچے عاشق رسولؐ ‘‘ پر کہ جوں ہی ہوش آیا، پو چھا ’’ رسو ل خدا ﷺ‘‘ کا کیا حال ہے؟
آپ کی والدہ ام الخیر نے پانی ودودھ کا پیالہ دینا چاہا تو صدیق اکبر ؓ نے کہا کہ اس وقت تک کچھ نہ کھائوں نہ پیوں گا، جب تک رسول اللہ ﷺ کو دیکھ نہ لوں۔چناںچہ صدیق اکبر ؓ اسی حالت میں دار ارقم جہاں آپ ﷺ آرام فرمارہے تھے،پہنچے،دیکھتے ہی صدیق اکبرؓ روپڑے،آپ ﷺ کا بھی دل بھر آیا،اسی دن صدیق اکبر ؓ کی والدہ اور آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ اسلام لے آئے،غرض محافظ رسولِ خدا نے اپنے آپ کو اسلام قبول کرنے کے بعد حبیب خداﷺ کی خاطر مٹاکر رکھ دیا اور آپﷺ کی ہر موقعے پر مدد کی۔
ہجرت کے موقعے پر یار غار جس کی گواہی قرآن نے بھی دی۔صدیق اکبرؓ اور رسول اللہ ﷺ ایک غار میں جاکر بیٹھ گئے،جس کا نام ’’غار ثور‘‘ تھا،کفار ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں آپہنچے اور اتنا قریب آگئے کہ صدیق اکبر ؓ ان کے پائوں دیکھ رہے تھے، لیکن اس عاشق صادق کو اگر ڈر تھا تو وہاں بھی اپنی جان کا نہیں، رسو ل اللہ ﷺ کا۔ اس بات پر قرآن کی آیت شاہد ہے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:’’لا تحزن‘‘ مطلب غمگین نہ ہوں،’’حزن ‘‘اور’’خوف‘‘ میں فرق علماء نے لکھا ہے کہ خوف اپنی جان کا ہو تا ہے اور حزن دوسرے کی جان کا۔
اس مقام پر قرآن نے بھی گواہی دے دی کہ صدیق اکبر ؓ کو رسول اللہ ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ انہیں اپنی جان کا خوف نہیں، رسو ل اللہﷺ کو تکلیف پہنچنے کا حزن تھا، تب ہی قرآں نے ’’لا تحزن‘‘ کہا،صرف یہی نہیں آپ ﷺ کو غار میں داخل کرنے سے پہلے خود صدیق اکبرؓ غارمیں گئے، پہلے غار کی صفائی کی۔
ایک سوراخ جو بچ گیا تھا، اس پر اپنے پائوں کی ایڑی رکھ دی، اتنے میں ایک سانپ آیا جس نے آپ کو ڈس لیا، مگر سلام ہو صدیق اکبر ؓ کی جاں نثاری پر کہ انہوں نے ایڑی نہیں ہٹائی، زہر اثر اندازہوا تو صدیق اکبرؓ کی آنکھوں سے آنسو رسول اللہﷺ کے رخسار مبارک پر گرے، جس سے رسو ل اللہ ﷺ بے دا رہوئے، اس سے بھی صدیق اکبرؓ کی جاں نثاری واضح ہے، مدینہ پہنچ کر آب وہوا موافق نہ ہونے کی وجہ سے صدیق اکبرؓ کافی بیمار ہوگئے،ٹھیک ہو نے کے بعد مواخات یعنی ایک کو دوسرے کا بھائی بنائے جانے کے بعد اسلام کی تبلیغ اور جہاد کا سلسلہ شروع ہوا،صدیق اکبرؓ کو ہی یہ شرف رہا کہ سفروحضر میں انہوں نے کبھی رسول اللہﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کسی نے ہم پر احسان نہیں کیا اور ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا، سوائے ابوبکرؓ کے، ان کے احسانات کا بدلہ قیامت کے دن ﷲ تعالیٰ د ے گا۔ آپﷺ نے فرمایا:مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا،جتنا نفع ابوبکرؓ کے مال نے دیا ۔آپ کا عہدِ خلافت دینی اور مذہبی خدمات کے حوالے سے اسلامی تاریخ میں شہرت کا حامل ہے۔