• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدانوں کے ہاتھوں پاکستان کی تباہی کا مشاہدہ کرنا ہے تو موجودہ حالات اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے رویے دیکھیں، ان کی ترجیحات پر نظر دوڑائیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اُن کے لیے نہ توملک اہم ہے نہ ہی عوام۔ اُن کی ساری سیاست اپنے ذاتی وسیاسی مفادات کے اردگرد گھومتی ہے ۔ اُن کی سیاست کا مقصد صرف اور صرف اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا یا اقتدار کا حصول ہے، چاہے اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے وہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کا ٹکراؤ اگر ملک کے مفاد سے ہو تو یہ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کو مقدم جانتے ہیں اور اُنہی کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں، اس کا چاہے ملک کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ چاہے پی ڈی ایم یا عمران خان کی تحریک انصاف دونوں کا اس میں برابر کا کردار ہو۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے پہلے معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، وہ سب پر عیاں ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد عمران خان نے کیا کیا کوشش نہیں کی کہ معیشت کو جھنجھوڑا جائے، آئی ایم ایف اور حکومت کی ڈیل نہ ہو نے پائے تاکہ شہباز شریف حکومت کا خاتمہ ہو اور اقتدار تحریک انصاف کو دوبارہ مل جائے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم نے جب عمران خان کی حکومت کو ختم کیا اور اقتدار سنبھالا تو بار بار یہ کہا کہ وہ پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچانے کے لیے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور اُن کے وزیر مشیر کہتے رہے اور آج بھی کہتے ہیں کہ ریاست کو بچانے کے لیے اُنہوں نے اپنی سیاست کو قربان کیا۔ یہ سب بھی کہنے کی باتیں ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر معیشت بد سے بدتر کیوں ہو گئی؟آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے جو مشکل فیصلے کرنے ہیں وہ کیوں نہیں کیے جا رہے؟ عمران خان نے اگرپاکستان کو دیوالیہ ہونے کے راستے پر چڑھا دیا تھا تو شہباز شریف حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے کنارے پرپہنچا دیا۔ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے جسے بچانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کرملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے اور اس کی بہتری کے لیے اتفاق رائے قائم کرنا چاہئے لیکن دونوں فریق ہی ایسے سیاسی تماشے میں مشغول ہیں جسے دیکھ کر سیاست سے نفرت ہوجاتی ہے۔ پنجاب میں کئی مہینوں سے جاری تماشے نے ابھی نیا رُخ اختیار کیا ہی تھا تو وفاق میں بھی پی ڈی ایم کے اسپیکر کی طرف سے تحریک انصاف کے 35 ارکانِ اسمبلی کے استعفے اچانک منظور کرلیے گئے جس پر پی ڈی ایم اور خصوصاً ن لیگ کے رہنما تحریک انصاف کو طعنہ دے رہے ہیں کہ سرپرائز کیسا لگا؟ گزشتہ ہفتے یہی طعنہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پی ڈی ایم والوں کو اُس وقت دے رہی تھی جب پہلے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے صوبائی اسمبلی سے اچانک اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا اور پھر دوسرے دن گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دی۔ یہ دونوں سیاسی مخالف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر روز گھنٹوں سوچ بچار کرتے ہیں، میٹنگز پر میٹنگز بلاتے ہیں، اپنے اپنے سیاسی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں لیکن ان کے پاس ملک کودرپیش معاشی چیلنجز کے حل کے لیے وقت نہیں۔ یہ دونوں سیاسی مخالف محض اپنے سیاسی مفادات اور فوج کی خوشنودی کی خاطر ایک آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لیے اور دوسرے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے اتفاق کر سکتے ہیں لیکن ملک کی ڈوبتی معیشت اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونےسے بچانے کے لیے آپس میں نہ مل بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس اہم ترین مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان اپنی سیاست کے لیے جسے ماضی میں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا، اُسے پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی بنا سکتے ہیں اور تحریک انصاف کا صدر بنانے کی بھی آفر کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ یہی حال ن لیگ اور وزیراعظم شہباز شریف کا ہے جو ماضی میں آصف علی زرداری کی کرپشن پر کیا کچھ نہیں کہتے تھے اور یہ اعلان کرتے تھے کہ جب حکومت ملی تو زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور اُن کا پیٹ چیر کر کرپشن کا پیسہ وصول کریں گے، آج اُنہی شہباز شریف اور ن لیگ کے لیے وہی زرداری نہ صرف اُن کی حکومت کا بہت بڑا سہارا ہیں بلکہ زرداری کو تو لیگی اب اپنا بڑا تسلیم کرتے ہیںلیکن افسوس کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانےکے لیے ن لیگ عمران خان سے بات چیت کرنے پر تیار نہیں۔ بس دونوں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں اور یہی پاکستان کی سیاست کا بدقسمت باب ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین