• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نو جنوری صبح پانچ بجے میرے دروازے کی گھنٹی بجی ۔ میرا چھوٹا بھائی ظفر بالائی منزل پر موجود تھا ،اس بے وقت گھنٹی بجنےپر حیران ہوتے ہوئے اس نے موبائل پر نظر ڈالی تو 02:05بجے تھے، وہ اٹھا اور ٹیرس پر آیا تو سامنے گلی کا گارڈ دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا ۔ ظفر نے پوچھا ’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے وضو کیلئے پانی مانگا۔وہ میرے سامنے والے گھر میں ہی مقیم ہے اور اس نے چندروز قبل ظفر کو بتایا تھا کہ اس کو پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ ظفر نیچے آیا اور چھوٹادروازہ کھول کر جیسے ہی قدم باہر نکالا تو اسے احساس ہوا کہ گیٹ کے ساتھ لگ کر کچھ اور لوگ بھی کھڑے ہیں ۔وہ ایک دو تین نہیں بلکہ زیادہ تھے اورلائن بنا کر کھڑے تھے ، سیاہ لباس ، سیاہ نقاب اور ہاتھوں میں ہتھیار ۔ ظفر کے دروازے سے نکلنے سے قبل ہی ایک نے پسٹل سیدھا کیا ہوا تھا ، میرا بھائی باہر نکلا تو اس نےپسٹل کا رخ اس کےماتھے کی طرف کرتے ہوئے پسٹل کا چيمبر چڑھایا اور اسی لمحے ظفر نے اس کے پسٹل پر ہاتھ ڈال دیا ۔ شاید نہیں یقینی طور پر ڈاکوؤں کیلئے یہ انتہائی غیر متوقع ہوگا کہ اتنی ساری بندوقوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان پر نہتا ہی جھپٹ پڑےگا، ظفر ان سے گتھم گتھا ہو گیا اور اس سے پستول چھیننے کی کوشش کرنے لگا، اس کو اپنی گرفت میں بھی لے لیا ، دیگر ڈاکو اس کو چھڑانے کیلئے ظفر کے سر پر اور بازوؤں پر بٹ مارنا شروع ہو گئے، وہ گولی کیوں نہ چلا سکے ما سوائےرحمتِ خدا کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ظفر بٹ کھانے کے باوجود اس کو دھکیلتا ہوا سامنے والے گھر کے دروازے تک لے گیا جہاں پر انہوں نے ظفر کو بٹ مارتے ہوئے پوری طاقت سے دھکا دیا، ان کا ساتھی ظفر کی گرفت سے نکل گیا اور ظفر زمین پر گر گیا ، اس مڈبھیڑ میں گارڈ جس کو انہوں نے قابو کر کے اس کے ہاتھ باندھ دیے تھے، وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔ ایک ہمسائےکو شور سنائی دیا، اس نے کھڑکی سے دیکھنا چاہا مگر دھند کےسبب کچھ دکھائی نہ دیا البتہ ظفر کی گرجدارآوازسنائی دی تو انہوں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا اور پولیس ایمرجنسی پر کال بھی کردی ۔ ان کے شور سے میں بھی جاگ گیا تو میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ ایسا لگتاہے کہ جیسے ظفر دروازہ کھول کر باہر گیا ہے ۔ دروازے کھولتے ہوئے میں گیٹ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ظفر سامنے والوں کے دروازے کے پاس زمین سے کھڑا ہو رہا ہے ۔ اس نے مجھے کہا کہ باہر مت آؤ لیکن میں باہر آ چکا تھا،تب اس نےبتایاکہ ڈاکوآ گئے تھے ۔ ظفر کے خیال کے مطابق جب انہوں نے میرے گھرکا دروازے کھلنے کی آواز سنی تو ایک نے کہا کہ بھاگواور وہ خالی پلاٹ میں سے ہوتے ہوئے میرے باہر آنے سے قبل ہی بھاگ نکلے،مجھے صرف چندگولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ ظفر کے سر سے خون بہت تیزی سے بہہ رہا تھا ۔ اتنی دیر میں سیکورٹی گارڈ جودوسری گلی میں بھاگ گیا تھا، واپس پہنچ گیا، دیگر محلے دار بھی اکٹھےہوگئے ۔گارڈ میرے بھائی کی ڈاکوؤں سے گتھم گتھا ہونے کی روداد بتانے لگا ۔ شیرشاہ چوکی کی پولیس پہنچ گئی اور پھر دیگر پولیس موبائل گاڑیاں بھی آگئیں ۔ عمومی طور پر ایسے واقعات میں پولیس کے دیر سے پہنچنے کی شکایت کی جاتی ہے مگر یہاں پولیس دس پندرہ منٹ میں پہنچ گئی ۔ چوکی کا فاصلہ میرےگھر سے عمومی موسم میں بھی کوئی سات آٹھ منٹ کاہوگا، اب تو زبردست دھند بھی تھی ۔ ظفر زندہ بچ گیا۔ پولیس، محلے دار سب نے اس کے یوں بچ جانے کو قدرت کا کرشمہ ہی قرار دیا ۔ اس واقعے کے حوالے سے مجھ سے سی سی پی او لاہور اور ڈی آئی جی نے رابطہ کیا تو میں نے ان کو بتایا کہ ایل ڈی اے ایوینیو ون میں وارداتوں کی وجہ سے میں نے 4، 5 روز قبل ایس پی صدر سے رابطہ بھی کیا تھا اور انہوں نےمجھے یقین دہانی کروائی تھی کہ پولیس گشت شروع کردیا جائے گا مگر پولیس بیچاری نےکیا گشت کرنا ہے؟ جس موبائل پر شیر شاہ پولیس پہنچی، جب واپس جانے لگے تو اس کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کیا گیا، پولیس والوں نے بتایا کہ چار ماہ سے لاہور پولیس کا تو پٹرول ہی بند ہے ۔ شیر شاہ چوکی جو نوے ہزار لوگوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، اس کی کل نفری محض 17 اہلکار ہیں ۔ میرے کیس کے حوالے سے ایس پی انویسٹی گیشن صدر کو معلومات ہی نہیں ۔ ایل ڈی اے نے ایل ڈی اے ایونیو ون کے نام پر 160 گارڈز بھرتی کئے ہوئے ہیں ۔ متعلقہ پولیس نے بتایا کہ ہم نے ان گارڈزسے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے رابطہ کیا تو ایل ڈی اے نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ایل ڈی اے اس سوسائٹی کے تمام پلاٹ بیچ چکی ، رقم وصول کر چکی مگر اپنا وعدہ کہ اس سوسائٹی کے گرد چاردیواری ہوگی ، گیٹ تعمیر ہونگے ،پانی کے کنکشن ہونگے، وفا نہ کرسکی۔ اس واقعے کے میڈیا پر آنے کے بعد محترم نواز شریف، مختلف سفرا ، سفارت کاروں اور دوست احباب نے خیریت دریافت کی۔ میڈیا اور تمام احباب کا شکر گزار ہوں۔ میں نے یہ سب کیوں بیان کیا ؟ میں تو خوش نصیب ہوں کہ اپنے بھائی کو مقتول نہیں دیکھا مگر کتنے گھر روز ایسی وارداتوں میں اجڑ جاتے ہیں، کتنے گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں ۔ پولیس نے ایک ڈکیت گینگ پر شک ظاہر کیا کہ وہ حال ہی میں جیل سے رہا ہوا ہے اور یہ سب کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ مؤثر قانون سازی کون کرے گا؟ دھکا اسٹارٹ موبائل اور ساتھ میں پٹرول بھی بند ، سر پیٹنے کو جی چاہتا ہےکہ یہ لاہور کی بات ہے اور پھر ایل ڈی اے کی وعدہ خلافی ،بات صرف ایل ڈی اے کی نہیں ، دیکھنا یہ چاہئے کہ جو رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز سیکورٹی کے وعدے کرتے ہیں، وہ پورے بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ ریاستی ادارہ تو وعدہ پورا نہیں کر سکا ۔ اگر ان معاملات پر توجہ نہ دی گئی تو گھر اجڑتے رہیں گے اور بے گناہوں کا خون کس کی گردن پر ہوگا؟

تازہ ترین