• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سچ سچ ہے، کڑوا ہے تو کیا…؟

زندگی مصروفیات سے مزیّن ہے، باوجود کوشش کے وقت ہی نہیں نکل پاتا۔ کچھ بچّوں کی مصروفیات، کچھ گھر کی، بس اِن ہی بھاگتے دوڑتے لمحات میں سے کچھ سَمے نکال کر سنڈے میگزین پڑھتے ہیں۔ کافی عرصے سے سوچ رہی تھی کہ کسی شمارے پر تبصرہ لکھ بھیجوں (ویسے تبصرہ لکھنے کا خیال آپ کے جوابات پڑھ کر آیا) تو آج 27 نومبر کے شمارے پر کچھ تعریف و تنقید کے ساتھ حاضرہوں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ’’خودکُشی عذاب ہے یارب‘‘ پڑھا۔ ویسے میرے خیال میں جن کا اللہ پر توکّل مضبوط ہوتا ہے، وہ ایسا حرام کام نہیں کرسکتے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں، ڈیپریشن اور مایوسی کا علاج دینِ اسلام کی قربت میں ہے۔ 

دوسرا مضمون تھا، ’’فیفا ورلڈکپ قطر2022 ء‘‘ تو یہ جان کربےحد مسّرت ہوئی کہ ٹورنامنٹ کی سیکیوریٹی کے لیے پاکستانی فورسز کی خدمات حاصل کی گئیں اورمیچزمیں پاکستان کی تیارکردہ فٹ بالز ہی استعمال ہوئیں۔ باقی اعدادو شمار تو ہم نے سرسری سے پڑھے کہ کون سا ملک کب جیتا، کب ہارا (بھئی ہمیں کیا، اگر پاکستان شامل ہوتا تو دل چسپی بھی ہوتی) لیکن مضمون نگار نےقطر کی شان دار میزبانی،خاص طور پر افتتاحی تقریب میں تلاوتِ قرآنِ پاک سے آغاز، اسلامی روایات و ثقافت کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنےاورکسی کا دبائو قبول نہ کرنےکا(کہ جس کو ہماری روایات کی پاس داری کرنی ہے، وہ آئے، ورنہ بھاڑ میں جائے) تذکرہ نہیں کیا۔ اللہ ہمارے وطنِ عزیز کو بھی ایسےدبنگ، کسی کے سامنے نہ جُھکنے والے اور اپنی دینی اقدار و روایات کو فخر سے اپنانے والے حکم ران عطا فرمائے۔ (آمین) ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ بہت بہت معلوماتی اور ایمان تازہ کرنے والا سلسلہ ہے۔ 

محمود میاں نجمی کی یہ کاوش اللہ قبول فرمائے۔ بہت سی باتیں ہم کو پہلی بار معلوم ہورہی ہیں، جیسےیثرب کےمعنی ہیں فساد، گناہ پر عار دلانا اور ذلیل کرنا۔ ویسے واقعی اللہ جسے چاہے عزّت دے۔ یثرب کو اللہ نے اتنی عزّت دی کہ اپنے پیارے محبوب حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل مسکن بنادیا۔ اور ہاں، ایک بات تو بتائیں، آپ کی ٹیم زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی شخصیات ہی کے انٹرویوز کیوں کرتی ہے۔ آپ کا عالمی افق تو ہم آنکھیں بند کرکے پلٹ دیتے ہیں۔ ’’متفرق‘‘میں مولانا ظفرعلی خان کےحالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا۔ واقعی یہ لوگ اپنی ذات میں یکتا تھے۔ بہت سادہ لیکن نظم و ضبط سے زندگی گزارنے والے۔ 

ایسے لوگوں کے حالاتِ زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں فرّخ شہزاد نے ایڈز سے متعلق آگاہی دی، جس سے ہم پہلے ہی آگاہ تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ عزیز بھٹی کا’’کمرا‘‘ایک اچھوتی تحریر تھی۔ ’’اسٹائل‘‘ کچھ زیادہ پسند نہیں آیا اور ناقابلِ فراموش میں ’’کراچی کے چند داداگیر‘‘ پڑھ کر تو چند لمحوں کے لیے ہم ساکت ہی رہ گئے۔ بھئی یہ رانا توفیق احمد خان تو ’’سُپر دادا‘‘ نکلے، جو تین تین دادائوں کی پٹائی کردی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اِس بار کوئی کتاب خاص نہیں تھی۔

ہاں، آپ کا صفحہ میں عیشا نیاز رانا مسندِ خاص پر براجمان تھیں تو اچھا لگا۔ اسماء خان دمڑ کے خط کی کمی محسوس ہوئی۔ ویسے قارئین کے خطوط سے زیادہ مجھے تو آپ کے چٹ پٹے جوابات مزہ دیتے ہیں۔ عرفان جاوید کی تحریرپرچند لوگوں نےاعتراض کیا۔ میرے خیال میں تو جو انسان جیسا ہو، جیسا ماضی رکھتا ہو، اُس سے متعلق ویسا ہی لکھا جانا چاہیے۔ اب اگر سچ بے باک ہے، کڑوا، تلخ ہے، تو کیا ہوا، سچ تو سچ ہے۔ آخر میں اشفاق احمد کی بات کہ ’’آسانیاں بانٹیں، اللہ آپ کو آسانیاں دے گا۔‘‘ (زلیخا جاوید اصغر، کراچی)

ج:یوں تو انٹرویوز سب ہی صوبوں سے کروائے جاتے ہیں، لیکن بلوچستان اور کے پی کے سے زیادہ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہاں کی مقامی شخصیات کو عموماً میڈیا میں وہ ایکسپوژر نہیں ملتا، جو پنجاب اور سندھ کی شخصیات کو ملتا ہے، تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اگر اِن صوبوں میں کسی بھی سطح پر کوئی اچھا کام کررہاہے،تو اسے سامنے لانا چاہیے۔ اور فیفا ورلڈ کپ سے متعلق جس تحریر کی آپ بات کررہی ہیں، وہ ایونٹ کے آغاز سے قبل تیار کروائی گئی تھی۔ بعد ازاں، متعدّد مضامین میں قطر کی شان دار میزبانی کا بھرپور انداز سے تذکرہ کیا جاتا رہا۔

نئے ’’آدمی‘‘ کا انتظار

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی مدینہ منوّرہ سے متعلق تحریر کی دوسری قسط بہت ہی عقیدت و محبّت سے پڑھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس کا جان دار مضمون پڑھنےکو ملا، جس میں انھوں نے بہت تفصیل سے فوجی سپہ سالاروں کاذکر کیا۔ ہمیں تو اِن سپہ سالاروں میں جنرل عبدالوحید کاکڑ سب سے اچھے لگے، جنہوں نے ملازمت میں توسیع کی پیش کش قبول ہی نہیں کی اور اپنے وقت پر ریٹائرمنٹ لے لی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘بہترین انداز سے شروع ہوا ہے۔ ابھی تو موصوف اٹاری پر ہیں، آگے آگےدیکھیے ہوتا ہےکیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں تراکیب نہیں تھیں، تو پلیز، موسمِ سرما کے کھانوں، لوازمات کی ترکیبیں ضرور شایع کریں۔’’نئی کتابیں‘‘ میں  بہت عرصے بعد ایک اچھی کتاب پر تبصرہ پڑھنے کو ملا اور وہ کتاب تھی، لجپت رائے متلانی کی ’’دل کی شرارتیں‘‘ اور ہاں، عرفان جاوید کا اب ’’نیا آدمی‘‘ کب تک آئے  بہت عرصے بعد ایک اچھی کتاب پر تبصرہ پڑھنے کو ملا اور وہ کتاب تھی، لجپت رائے متلانی کی ’’دل کی شرارتیں‘‘ اور ہاں، عرفان جاوید کا اب ’’نیا آدمی‘‘ کب تک آئے گا، بہت شدت سے انتظار ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ایک اچھی تحریر خونِ جگرمانگتی ہے،ایسے ہی ظہور میں نہیں آجاتی۔ اور پھر عرفان جاوید جیسےلکھاری پرفیکشن ازم، کم اور اچھا لکھنےپریقین رکھتے ہیں، تو آپ کو اُن کی تحریریں تھوک کے بھائو نہیں ملیں گی۔ دیکھیں، اب اگلا شاہ کار کب اور کس موضوع پر آتا ہے۔

غیر ضروری بولڈنیس نظر نہیں آئی

میگزین بہت خُوب ہے۔ رائو محمّد شاہد اقبال کی تحریر ’’خُودکُشی عذاب ہے‘‘ ایک بہترین کاوش تھی۔ محمود میاں نجمی بہترین دینی معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے کلنا مریم کانفرنس کی رُوداد اچھے انداز سے مرتّب کی۔ محمّد ارسلان فیاض بلوچستان سے متعلق آگاہی فراہم کر رہے تھے۔ میرے فیوریٹ منور مرزا ایک بہترین تجزیہ نگار ہیں۔ اُن کی ہر تحریر سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ رمضان مغل کا ’’وطن ہے تو ہم سب ہیں‘‘ بھی میرا پسندیدہ مضمون رہا۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات پُراثر تھے۔ اچھے لکھاری بہت مشکل سے ملتے ہیں،جو یقیناً خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور میرے خیال میں عرفان جاوید ایک ایسے ہی لکھاری ہیں۔ مَیں اُن کا بہت مدّاح ہوں۔ دروازے، سُرخاب، آدمی سب ہی سلسلے مَیں نےذوق و شوق سے پڑھے اور مجھے اُن کی کسی تحریر میں کہیں بھی غیر ضروری بولڈنیس نظر نہیں آئی۔ مجھے لگتا ہے، عموماً لوگ تنقید برائے تنقید ہی کرتے ہیں۔  اگر ممکن ہو، تو اپنے لیجنڈز شاہد، شان، قوی، ندیماور غلام محی الدین وغیرہ کے انٹرویوز بھی شایع کریں۔ (سیّد وارث علی، ملّت گارڈن، ملیر سٹی، کراچی)

ج:جی، درست فرمایا، ہمارے یہاں تنقید برائے اصلاح کا رجحان خال ہی دکھائی دیتا ہے۔

کس مُلک کا سفر درپیش ہوگا؟

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ شُکر الحمدللہ، دونوں ہی میں ’’سرچشمۂٔ ہدایت‘‘کے متبرّک صفحات موجود تھے۔ ’’برطانیہ آئیڈیل جمہوریت، آئیڈیل بادشاہت‘‘ منور مرزا کی شان دار رپورٹ تھی۔ بارش، سیلابی ریلوں نے زلزلہ زون میں واقع کوئٹہ کے سب پول کھول دیے۔ اگر واقعی مُلک بھر میں ڈیم بن گئے ہوتے، تو اس قدر تباہی و بربادی نہ ہوتی۔ قومی و بین الاقوامی شہرت کے حامل ووشو مارشل آرٹس کے قومی چیمپئن، شاہ زیب رند سے ملاقات خُوب رہی۔ سلسلے ’’آدمی‘‘ اور ’’دل کو چِین کا ہے سفر درپیش‘‘ کی آخری دو، دو اقساط کے ساتھ ہی یہ سلسلے اختتام پذیر ہوئے۔ دیکھتے ہیں، آئندہ کس سلمیٰ آنٹی کو کس مُلک کا سفر درپیش ہوتا ہے۔ مشہورِ زمانہ فلسفی، شاعر اور صحافی رئیس امروہوی سے متعلق مضمون شان دار تھا۔ ’’خوف ناک موسموں کے قیدی‘‘ میں مُلکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا آنکھوں دیکھا حال پڑھ کر اور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا۔ اللہ پاک ہم پر اپنا رحم و کرم فرمائے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں محمّد عارف قریشی نے ناچیز کا ذکر کیا اور آپ نے ناچیز کا خط شایع فرمایا۔ دونوں کا بےحد شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: ایسی بھی کیا کسرِ نفسی، آپ نے تو ناچیز، ناچیز کی گردان ہی شروع کردی۔

کتابوں کی محض زیارت

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش و خرّم ہوں گے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مکّہ مکرّمہ کے ماضی و حال سے متعلق مضمون کی آخری قسط پڑھی، دل نے اطمینان پایا۔ بلاشبہ نجمی صاحب کی عُمدہ کاوش بہت خُوب رہی۔ ’’انٹرویو‘‘ اچھا تھا۔ آپ کے علم میں یقیناً ہوگا کہ پاکستان میں پی ایچ ڈیز، آبادی کے تناسب سے محض0.1 فی صد ہیں۔ حشرات الارض کے معنی کے لحاظ سے کچھ تشنگی باقی رہی، مگر ڈاکٹر فرخندہ منظور سے بات چیت بہت ہی عُمدہ اور معلوماتی تھی۔ حالات و واقعات میں کوپ27- پر منور مرزا نے خُوب لکھا۔ اُن کا ہرہر تجزیہ معلومات میں خاصا اضافہ کرنے کے ساتھ رائے سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں شامل دونوں مضامین بےحد معلوماتی تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں اِس دفعہ بچّوں کی قلقاریاں سُننے کو ملیں، ساتھ ہی ذرا بڑے ہوئے تو نفسیاتی امراض نے بھی آگھیرا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا خورشید پوری تاب ناکی سے طلوع ہوا۔ ’’متفرق‘‘ میں تین لکھاریوں نے قلمی جوہر دکھائے۔ ’’رپورٹ‘‘ کچھ زیادہ دل چسپ معلوم نہ ہوئی، البتہ نئی کتابیں ایک بھرپور صفحہ تھا، مگر بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ جب ڈائجسٹوں کی قیمت500روپے ہوگی، تو کتابوں کی تو محض زیارت ہی نصیب ہوگی اور ’’آپ کا صفحہ‘‘، واہ بھئی واہ، اس دفعہ تو میرا خط بھی خُوب چمک رہا تھا، جیسے رِم جھم برکھا کے بعد اچانک قوسِ قزح دکھائی دے جائے۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج:اس بار اگر بیگم، بچّوں کو ایک برانڈڈ لباس، جوتا کم خرید کر دے دیں، تو2 سے3 کتابیں باآسانی خرید سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں برانڈز کے نام پر جو لوٹ مار مچی ہوئی ہے، وہاں تو آنکھیں بند کرکے ہزاروں لُٹا دیے جاتے ہیں، مگر کتاب کی500 قیمت دیکھ کر بھی آنکھیں چڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں تو بخدا اِن برانڈز کی یہ ’’فلیٹ50%سیل‘‘ بھی سو فی صد ڈراما لگتی ہے۔ یقیناًپراڈکٹ کی اصل قیمت اس50فی صد سیل سے بھی کئی گُنا کم ہی ہوتی ہوگی۔

حوالہ جات کے ساتھ

’’مکّہ مکرّمہ:ماضی و حال کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے خُوب صُورت ترین سلسلہ13قسطوں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ اگر مَیں یہ کہوں کہ محمود میاں نجمی نے سمندر کو کُوزے میں بند کردیا، تو بے جا نہ ہوگا۔ یوں تو نجمی صاحب کا ہر مضمون ہی تحقیقی حوالہ جات کے ساتھ بیش قیمت معلومات کا خزانہ لیے ہوتا ہے، لیکن مکّہ مکرّمہ پر حالیہ سلسلے میں اُن کی عرق ریزی اور کتابوں کے حوالہ جات تو ہم جیسے طلبہ کے لیے اَن مول ہیں۔ مَیں شاہدہ تبسّم کی اس بات کی مکمل تائید کرتا ہوں کہ دینی مضامین لکھنے والے ہر مضمون نگار کو اِسی طرح مکمل حوالہ جات کے ساتھ ہی مضامین قلم بندکرنےچاہئیں۔’’یومِ اطفال‘‘ پرشفق رفیع کی رپورٹ بھی بےحد فکرانگیز تھی۔ جبار مرزا بچّوں کی سہ روزہ عالمی کانفرنس کے ساتھ آئے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے مُلک میں نونہالوں کے لیے وہ کام نہیں ہورہا ہے، جو ہونا چاہیے۔ رئوف ظفر ’’جنگ فیملی‘‘ کے پرانے رکن ہیں۔ انہوں نے حشرت الارض سے متعلق ایک اچھا، منفرد انٹرویو کیا۔ ہمایوں ظفر کی تعریف بھی نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ وہ آج کل خاصی محنت کر رہے ہیں۔ اختر سعیدی کے تبصرے غیر جانب دارانہ اور بھرپور ہوتے ہیں۔ (سیّد آصف، شہیدِ ملّت، کراچی)

                              فی امان اللہ 

اس ہفتے کی چٹھی

 اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے۔ ماہِ نومبر کا پہلا شمارہ سامنے ہے۔ مُلکی حالات و واقعات پر دل ویسے ہی پریشان ہے۔ ہر دن، دل شکستگی کی کوئی نئی خبر، نئی اُمید کو بجھا دیتی ہے۔ خدایا! کسی دن ہمارے لیے بھی عزّت و تکریم، وقار و شرافت کا سورج طلوع ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ سے گفتگو کی رُوداد پڑھ کر قومی زوال کی وجوہ ہی ڈھونڈتے رہے۔ معاشرہ فرد سے نمو پاتا ہے، جب ایک گھر اور فرد کی تربیت میں سقم ہوگا، تو اخلاقی خوبیوں سے متصف معاشرے کا ظہور کیسے ممکن ہوگا؟ حکومتی ادارے ناکام، بلکہ لگتا تو یوں ہے کہ ’’حکومت‘‘ نامی دوشیزہ کسی حُجرے میں مستور لمبے مراقے میں مصروفِ عمل ہے۔ رات کے اندھیرے میں حضرت عُمر فاروقؓ کے قدموں کی چاپ مدینے کی گلیوں میں سُنی جاتی تھی اور لوگ چَین کی نیند سویا کرتے تھے۔ آج ہماری راتیں کل کی فکر میں پریشان گزرتی ہیں، جب کہ ہماری فکر تو پورے عالم کے انسانوں کی فکر ہونی چاہیے تھی۔ اخبارات میں خبر پڑھتے ہیں، فلاں حکومتی ادارے میں غبن کا انکشاف۔ خبر بنانے والے کی حیرت پر حیرت ہوتی ہے کہ حیرت تو تب بنتی ہے کہ جب کوئی سرکاری ادارہ ایمان داری سے کام کرے۔ ’’امن تباہ کرنے کی اجازت ہرگز نہ دیں گے۔‘‘ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ اجازت مانگ کر امن تباہ کون کرتا ہے۔ ’’آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا‘‘ بس کردیں، خدا کے لیے یہ مزاحیہ پروگرام بند کردیں، یہ نمائشی تعلیمی ادارے، اور کچھ عرصے کے لیے تربیتی ادارے کھولیں اور اگر بہت مجبوری ہے، تو نمبرز اور گریڈز تربیت پر دیئے جائیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کے تحت ’’عالمی یومِ بچت‘‘ پڑھ کر سر دُھنتے رہے۔ یہ ہوٹلز اور بینکس ہی ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کی سخاوت اور اکرام کا گلا گھونٹ دیا، اُنہیں بخیل بنا دیا۔ بزرگوں سے سُنا کہ مسلم ممالک سے ہوٹلز اور بینکس ختم ہو جائیں، تو ترقی کا سفر شروع ہو جائے۔ ہم بُرے وقت کے لیے بچتیں بینکس میں رکھتے ہیں، مگر نتیجے میں حرص و ہوس بڑھ گئی ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ حالیہ جریدے میں ’’تعفّن‘‘ ایک بہت اچھی تحریر تھی، مدثر اعجاز نے ایک اُچھوتا خیال، خُوبی کے ساتھ پیش کیا۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: گرچہ آپ کی کئی باتیں ہمارے صفحے ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ کے لیے زیادہ موزوں ہیں، لیکن سو فی صد حق پر مبنی ہیں اور حُکم ران طبقے اور عوام تک پہنچنی بھی ضرور چاہئیں، اس لیے شایع کیے دے رہے ہیں۔ بہرحال، آئندہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیےصرف جریدے کے مندرجات ہی پر فوکس رکھیں تو عنایت ہوگی۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں نےآپ کو پہلے بھی دو بار ای میل کی۔ مَیں، آپ کو اپنے بھائی کی آئی ڈی سے ای میل کرتی ہوں، لیکن مَیں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ میری ای میل میرے نام سے شایع کیجیے گا، مگر آپ نے بھائی ہی کے نام سے پرنٹ کردی۔ پلیز، پلیز اب یہ ای میل میرے نام سے شایع کریں، مَیں سنڈے میگزین کی بہت فین ہوں اور خصوصاً آپ کا صفحہ بے حد شوق و دل چسپی سے پڑھتی ہوں۔ (فرزانہ مسکان ناصر، ژوب)

ج: فرزانہ، آپ نے پچھلی ای میل پر اپنا نام لکھا ہی نہیں تھا، تو آپ کانام کیسے پرنٹ کرتےاور بھائی کے نام سے اس لیے شایع کردی تھی کہ کم از کم آپ کو علم تو چل جائے کہ آپ کی ای میل شایع ہوگئی ہے۔

* مَیں آج پہلی بار آپ کی محفل میں شریک ہورہا ہوں۔ لڑکپن سے جنگ اخبار کا قاری ہوں۔ میرا دورِ طالب علمی ملتان میں گزرا۔ اب کینال روڈ، لاہور کا رہائشی ہوں۔فیملی کےساتھ، صحت کےکچھ مسائل سے دوچار، ایک ریٹائرڈ بینکار کی زندگی گزار رہا ہوں۔ بدقسمتی سے میرے پاس اردو اِن پیج دست یاب نہیں، تو انگریزی میں ای میل کررہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ میری گزارشات ترجمہ کرکے ضرور شایع کریں گی۔ جریدے میں آپ اور آپ کی ٹیم کی محنتِ شاقّہ واضح نظر آتی ہے۔ میری نیک خواہشات تمام اسٹاف تک پہنچا دیں۔ دُعاگو ہوں کہ اللہ جریدے کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے۔ ایک درخواست ہے کہ کچھ عرصہ قبل آپ نے ثروت جمال اصمعی صاحب کی ایک تحریر شایع کی تھی، جس میں بہت سے ریفرنسز بائبل سے لیے گئے تھے، اگر مجھے اُس کی تاریخِ اشاعت بتا دیں تو بے حد ممنون رہوں گا۔ (غضنفر علی، کینال روڈ، لاہور)

ج: اللہ پاک آپ کو صحت و تن درستی دے۔ ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا بےحد شکریہ۔ ثروت جمال اصمعی صاحب کی تحریر24 اکتوبر 2021 کے ایڈیشن میں شایع ہوئی تھی، جو آپ کو ہمارےنیٹ ایڈیشن کے آرکائیو سے بھی بآسانی مل سکتی ہے۔ 

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk