• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حشر کا ہفتہ تھا! پچاس برس کی انقلابی جدوجہد کا ساتھ ٹوٹ گیا۔ ایک نہایت دیرینہ ساتھی خواجہ احسان، جنرل ضیا الحق کے مارشل لامیں ترکِ وطن پہ مجبور ہوئے اور پھر واپس نہ آپائے۔ اسی ہفتے ساتھی عبدالطیف آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کے بار روم میں قتل کروادیا گیا اور لاہور میں صحافیوں کے لیڈر خالد چوہدری داغ مفارقت دے گئے۔ ان احباب کی رحلتوں نے قلب و روح کو تڑپا دیا ہے اور اُن سے وابستہ یادوں کے رزمیوں کی اندوہناک یادیں ہیں کہ اُمڈتی چلی آرہی ہیں۔ غالباً افضل بنگش کے بعد خیبرپختونخوا میں لطیف لالہ سے زیادہ بائیں بازو کا کوئی مقبول رہنما نہ تھا اور خالد چوہدری ایوب اور ضیا کی آمریتوں سے لڑنے والے اُن نوجوانوں میں نمایاں تھے جنہوں نے ظلمت کدوں میں حریت کے چراغ روشن کئے تھے۔دونوں کی جدوجہد ایک روشن خیال، استحصال و آمریت سے پاک عوامی جمہوریہ کیلئے تھی۔ ایک پختون تھا اور دوسرا پنجابی لیکن نظریۂ حیات اور مقصد ایک ہی تھا۔ ان دونوں انقلابیوں کو میں 1968 کے عوامی ابھار کے دنوں سے جانتا ہوں اور ہم شریک سفر رہے۔

ایوبی آمریت کے خلاف نوجوانوں کی جدوجہد میں لاہور میں خالد چوہدری، کراچی میں معراج محمد خان، پشاور میں لطیف آفریدی، حیدر آباد میں رسول بخش پلیجو، کوئٹہ میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور جانے کتنے سڑکوں پر نکلے تھے اور ہر طرف ایشیا سرخ ہے اور سوشلزم کے نعرے گونج رہے تھے۔ ایوب آمریت کو جانا پڑا اور بقول منیر نیازی: اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا۔ ایوب خان کی جگہ جنرل یحییٰ خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر مسلط ہوگئے۔ 1970ء کےانتخابات ہوئے اور ملک کے دونوں بازوؤں میں ترقی پسند، سیکولر اور قوم پرست جماعتیں کامیاب ہوئیں لیکن نصیب میں آئی تاریخ کی بدترین فوج کشی اور اجر میں ملی بنگلہ دیش کی آزادی اور مغربی پاکستان میں 1973 کے آئین کی جمہوریہ، بایاں بازو مشرقی پاکستان میں قربان ہوا تو مغربی پاکستان میں بھی جمہوریہ کے قیام کے کام آیا۔ ہم سب نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی مخالفت کی اور یحییٰ خان کی آمریت کا نشانہ بنے۔ پھر بھٹو صاحب کا پاپولسٹ دور آیا، لوگوں نے سمجھا کہ بس انقلاب آگیا ہے، مزدوروں نے فیکٹریوں پہ قبضے کرلئےاور کسانوں نے بیگار سے انکار کردیا کچی پکی اصلاحات ہوئیں اور آخر میں خون میں لتھڑی ہوئی شام۔ جن انقلابیوں نے بھٹو کے لبرل لیفٹ پاپولزم کو کندھا دیا تھا، سب کے سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ پیپلزپارٹی اور نیپ میں جھگڑا کیا ہوا کہ مستقبل کی جنرل ضیا الحق کی وحشیانہ آمریت کے لئے قومی اتحاد کی ”نظام مصطفےٰ“ کی دائیں بازو کی تحریک نے راہ ہموار کردی۔ بقول غوث بخش بزنجو قوم پرست (نیپ)جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی فوج کی گود میں چلی گئی۔ بھٹو صاحب کابائیں بازو اور قوم پرستوں سے جھگڑاجمہوریہ کے زوال کا باعث بنا۔ اور جب ضیا الحق کا مارشل لاطویل تر ہوا تو یہ بائیں بازو کے کارکن اور پیپلزپارٹی کے جیالے ہی تھے جو بہادری سے ظلم و استبداد کے خلاف کھڑے ہوئے۔ جن میں مرتضیٰ بھٹو، لطیف آفریدی، خالد چوہدری، نذیر عباسی اور طوطی جیسے انقلابی ڈٹ کر لڑے اور تحریک بحالیٔ جمہوریت (MRD) کی قیادت بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو، غوث بخش بزنجو، نوابزادہ نصراللہ خان، رسول بخش پلیجو اور معراج محمد خان نے سنبھالی۔ مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب میں وارسک کے عقوبت خانے سے چھ ماہ کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور جیل کی ڈیوڑھی میں پہنچا تو لحیم شحیم لطیف آفریدی میری حالت اور میرا مسخ شدہ حلیہ دیکھ کر روپڑے تھے اور مجھے ایک زندہ لاش کے طور پر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنی بیرک میں لے گئے تھے، گرم پانی سے نہلا کر، جمی ہوئی میل، اور لمبے ناخنوں کو ترشوا کر میرے اوسان بحال کرنے میں لگ گئے تھے، مجھے لگا کہ جیسے میں اپنی ماں کی گود میں آگیا ہوں۔ پھر پانچ برس کی طویل جیل اور لطیف لالہ کی مہربانیاں اور جیل کا ساتھ جہاں مولانا فضل الرحمٰن ہمارے رفیقِ خاص رہے۔اُدھر پنجاب میں اک حشر بپا تھا اور خالد چوہدری جیسے انقلابی میدانِ کارزار میں تھے۔ خالد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ کو بم سے اُڑانے کی سازش میں گرفتار کیا گیا تھا اور ہمارے دیرینہ رفیق اعتزاز احسن جب ان کی وکالت کے لئےمولوی مشتاق کی عدالت میں پیش ہوئے تو مولوی صاحب نے خالد کی فائل اٹھا کر پھینک دی تھی۔ ان کے بھائی ساحر رشید اور بیگم الزبتھ ان کی رہائی کے لئے مارے مارے پھرتے رہے۔ خالد چوہدری پی ایف یو جے کے رہنماؤں منہاج برنا، نثار عثمانی اور حسین نقی کے ہمراہ آزادیٔ صحافت کے لئے صف آرا ہوگئے۔ سافما میں خالد چوہدری کا ہمہ وقت ساتھ رہا اور جب ہم 2004 میں کشمیر کے دورے پر گئے تو خالد نے اس دورے کے حوالے سے بہت سے کالم لکھے جو کتابی صورت میں شائع بھی ہوئے۔

لطیف آفریدی شروع ہی سے جمہوری تحریک میں متحرک ہوگئے تھے اور فاطمہ جناح کی انتخابی مہم سے جنرل ضیا کی آمریت اور پھر قبائلی عوام کے حقوق اور مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد کے ہر اول دستے میں شامل رہے۔ جب قبائل کو حق بالغ رائے دہی ملا تووہ خیبر سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔وہ نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر،اے این پی اور قومی انقلابی پارٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔ مجھے یاد ہے جب اسلام آباد میں وکلا کنونشن منعقد ہوا تو انہوں نے مجھے اس کا اعلامیہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اسی کنونشن نے جو قرار دادیں پاس کیں وہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کو ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہیں جن کی تمام سیاسی جماعتوں کو تائید کرنی چاہئے۔ خالد چوہدری تو اچانک وفات پاگئے، لیکن لالہ لطیف کو ایک سازش کے تحت قتل کروایا گیا ہے۔ ان کا کسی خاندانی قبائلی خون خرابے سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا، وہ ایک امن دوست اورنیک شخصیت تھے بلکہ ہوا یہ ہے کہ آفریدی قبیلے میں جاری قتل و غارت کو روکنے کےلئے سیشن جج آفتاب آفریدی اور لطیف آفریدی کو مصالحت کنندہ مقرر کیا گیا اور انہی دونوں کو مار دیا گیا۔ اور جس سمیع اللہ آفریدی نے لطیف لالہ کو قتل کیا اس کے ڈانڈے مبینہ طور پر نادیدہ قوتوں سے ملتے ہیں۔ لطیف لالہ کی آخری تقریر سشدت پسندوں کی واپسی کے خلاف تھی، وہ پختونخوا میں جاری امن تحریک کے روح رواں تھے۔ ایک عرصہ سے وہ دہشت گردوں کے نشانےپر تھے اور بالآخر شہادت ان کا مقدر ٹھہری۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

تازہ ترین