• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو باتیں…میں سیاست سے گہری دلچسپی رکھنے کے باوجود سیاسی کالم نہیں لکھتا۔ برسوں پہلے یہ کام کیا تھا لیکن آج وہ کالم پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق کا ذکر پڑھ رہا ہوں کیونکہ وہ سارے کردار اور ماحول بدل چکا ہے۔ دوسری بات …مجھے موٹیویشنل اسپیکرز کے کام سے ہزار اختلافات ہیں لیکن میرے بہت سے دوست موٹیویشنل اسپیکر ہیں اور ان کے ساتھ میری حد درجہ محبت ہے، بالکل ایسے جیسے میرے کئی دوست میڈیا پر دن رات تبرا کرتے ہیں لیکن مجھ سے ان کا گہرا یارانہ ہے۔ قاسم علی شاہ سے بھی مجھے محبت ہے اور میں ان کی نیک نیتی اور خلوص کا قائل ہوں۔ کچھ روز پہلے قاسم علی شاہ نے ایک سیاسی شخصیت سے ملاقات کی جس سے بظاہریہ تاثر ابھرا کہ وہ شاید سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوگئی کہ کیا قاسم علی شاہ جیسے ٹرینر اور موٹیویشنل اسپیکر کو سیاست میں آنا چاہئے؟ اس سوال سے ہی ظاہر ہے کہ ہم سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ہم نے طے کرلیا ہے کہ سیاست بدمعاشوں ، لٹیروں اور خونخوار لوگوں کا کام ہے لہٰذا کسی شریف آدمی کو اس میں قدم نہیں رکھنا چاہئے۔اصولی طور پر تو سیاست میں آنا ہی ان لوگوں کو چاہئے جو علمی اور اخلاقی طور پر بہتر پہچان رکھتے ہوں۔

قاسم علی شاہ کس پارٹی کو جوائن کرتے ہیں یہ میرا ایشو نہیں لیکن میرا حسنِ زن ہے کہ ایسے لوگ سیاست میں آئیں گے تو مخالفین کو گالیاں نہیں دیں گے، بات سنیں گے ، سمجھیں گے اوراپنی سابقہ حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے بیانات دیں گے۔ قاسم علی شاہ کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی سوشل پلیٹ فارمز پر چل رہی ہیںجو بڑی دلچسپ ہیں مثلاً یہ کہ وہ پیسہ کمانے کے خلاف بات کرتے ہیں لیکن اپنے لیکچرز میں یہ بات بتانے کا لاکھوں روپیہ لیتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ قاسم علی شاہ تو پیسہ کمانے کے بہت حق میں ہیں، وہ کاروبار کی اہمیت بیان کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر بزنس کے کورسز کرواتے ہیں،معاشی طور پر مضبوط ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ہاں البتہ میری نظر سے ان کی کچھ ایسی وڈیوز ضرور گزری ہیں جن میں وہ ضرورت مندوں کی مالی مدد کے حوالے سے ترغیب دے رہے ہیں۔ایک اور اعتراض کیا گیاکہ قاسم علی شاہ نے بڑی شخصیت کے سامنے خوداعتمادی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا، اپنے ہاتھ اور قمیض کیوں بار بار درست کرتے رہے۔ گزارش ہے کہ قاسم علی شاہ کا حوالہ اُن کی خوداعتمادی سے کہیں زیادہ عاجزی و انکساری ہے۔ آپ ان کی وڈیوز دیکھ لیجئے’سرجی سرجی‘ کہہ کر بات کرتے ہیں۔جھک کر ملتے ہیں، مہمان کے آگے بچھ بچھ جاتے ہیں۔ایسے بندے کو یہ طعنہ دینا کہ وہ تن کرنہیں بیٹھا، زیب نہیں دیتا۔ویسے بھی جہاں وہ بیٹھے تھے وہ جگہ بیٹھنے کے لئے ایزی نہیں تھی، کرسی پر بیٹھے ہوتے تو کرسی کے بازئوں پر ہاتھ رکھ سکتے تھے لیکن جس قسم کے صوفے پر وہ بیٹھے تھے وہاں بیٹھنے والا کوئی بھی شخص اتنا ہی تنگ ہوتااور پھر ایسا شخص جس کے سامنے اس کی محبوب شخصیت بیٹھی ہو اس کا نروس ہونا کچھ عجب نہیں۔ کچھ لوگوں نے قاسم علی شاہ کو خبردار بھی کیا کہ وہ اگر سیاست میں آئے تو بہت گالیاں پڑیں گی۔ گویا قاسم علی شاہ اس ’راز‘ سے ناواقف ہیں۔ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، ہم کون ہوتے ہیں اُنہیں خطروں سے خبردارکرنے والے۔

میں نےکئی دفعہ سوچا کہ آخر مجھے موٹیویشنل اسپیکرز کی تقریریں کیوں اپیل نہیں کرتیں۔ وجہ یہ سمجھ آئی کہ ایسی تقریریں میرے جیسوں کے لئے ہوتی ہی نہیں۔ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر بندے کو اپنے جیسا ہی سمجھتے ہیں۔موٹیویشنل گفتگو بہت سے لوگوں کو اچھی لگتی ہے ، انہیں لگتا ہے کہ وہ بس تبدیل ہونے ہی والے ہیں۔میرا خیال ہے اس بات کو انٹرٹینمنٹ کے پوائنٹ آف ویو سے دیکھنا چاہئے۔ مجھے ڈرائونی فلمیں بہت پسند ہیں، ان سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن میں پھر بھی دیکھتاہوں۔ ڈرائونی فلمیں میرے شوق کی تسکین کا باعث بنتی ہیں تو اس میں کسی کو کیا اعتراض۔ جسے رومانوی یا تھرلر فلم دیکھنی ہے وہ اپنا شوق پورا کرلے۔ دنیا میں کامیاب لوگوں کی اکثریت نے شاید ڈیل کارنیگی کا نام بھی نہ سنا ہو لیکن بہرحال ان کی کتابیں بہت سے لوگوں میں مثبت جذبات ابھارتی ہیں، لوگ شوق سے ایسی کتابیں پڑھتے ہیں اور بس…!

ایک بات سے البتہ میں متفق نہیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ پروفیسروں اور ڈاکٹروں کو سیاست میں آنا چاہئے۔ شاہ جی کیا ایسے لوگ سیاست میں موجود نہیں؟ یہاں یورپ کی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے بھی سیاست میں موجود ہیں۔وہ بھی ہیں جن کی اپنی یونیورسٹیاں ہیں اور وہ بھی ہیں جو ڈگریوں کا ڈھیر لگائے ہوئے ہیں۔ تو کیا گالم گلوچ کا بازار کم ہوا؟میرا نہیں خیال کہ محض تعلیم انسان کا باطن بدل سکتی ہے۔تعلیم تربیت کی محتاج ہوتی ہے ورنہ تربیت سے محروم لوگ محض ڈگری یافتہ ہوتے ہیں۔قاسم علی شاہ کو جاننے کے لئے ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔ وہ صرف موٹیویشنل اسپیکر ہی نہیں استاد بھی ہیں اور ان کی زندگی کا طویل عرصہ تعلیم دینے میں گزرا ہے۔ ا نہیں اگرسیاست میں آنا ہے تو سو بسم اللہ لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستان میں سیاست نظریے کی بجائے شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ آپ جتنے بھی اچھے ہوں ، جتنے بھی بہتر ہوں، آپ کو پارٹی کی ’بڑی شخصیت‘ کے پائوں میں اپنا پائوں رکھنا پڑتا ہے۔ بڑی شخصیت جو کہے گی وہی ٹھیک ہوگا، وہی حکمتِ عملی اپنانا پڑتی ہے۔دنیا بھر میں پارٹی کی پالیسی چلتی ہے،ہمارے ہاں شخصیت کی پالیسی چلتی ہے۔ جب ووٹ نظریے کی بجائے شخصیت کو پڑے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنے پڑھے لکھے اور دردمند دل رکھنے والے پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

تازہ ترین