• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری نثار علی خان سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ملاقات

پچھلے دنوں سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے شاہین خان کے ڈیرہ ’گولڑہ ہائوس ‘‘میں ملاقات کا بلاوا آیا توہم 50 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے ان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، چوہدری نثار علی خان جنہوں نے پچھلے پانچ سال سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، اخبار نویسوں سے چھپتے چھپاتے پھرتے ہیں، کسی سماجی و سیاسی تقریب میں شرکت نہیں کرتے لہٰذا ان کی طرف سے ملاقات کی دعوت نظر انداز نہیں کی جاسکتی تھی۔گوشۂ گمنامی میں زندگی گزارنے والے اس سیاست دان کا شمار اب بھی ملک کے ’’باخبر ‘‘ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے ، انہوں نے اگرچہ اقتدار کے ایوانوں سے منہ موڑ رکھا ہے لیکن چکری میں پوری دنیا سے الگ تھلگ بلند و بالا چوبارہ پر رونقیں لگا رکھی ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان بند گلی میں جا چکا ہے، پاکستان کو اپنی سیاسی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ سمیت سب بند گلی میں کھڑے ہیں، کسی کو اس سے نکلنے کی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے، کوئی راستہ دکھائی نہیںدے رہا۔انہوں نے 5سال قبل جس’’ انٹرنل ہیمورج ‘‘INTERNAL HEMORRHAGEکے خدشے کا اظہار کیا تھا، آج ہمارا ملک ان حالات سے دو چار ہو چکا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے اپنی سیاسی سرگرمیاںحلقۂ انتخاب تک محدود کر رکھی ہیں، وہ کسی کے ہاں چائے کی پیالی پینے کے روادار ہیں اور نہ ہی اپنی سیاسی مصروفیات کی کوریج کا اہتمام کر رہے ہیں اور خاموشی سے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن وہ اپنے دوست صحافیوں کی پانچ رکنی کور کمیٹی سے شاہین خان مرحوم کی رہائش گاہ پر ’’ہائی ٹی ‘‘ پر ملاقات کرتے ہیں، ملاقات کے آغاز میں ہی چوہدری نثار علی خان اپنی گفتگو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ رکھنے کی فرمائش کر دیتے ہیں، اس لئے ہم بھی ان کی کسی گفتگو کو اپنی اسٹوری کا حصہ نہیں بناتے البتہ ان سے ہونے والی گفتگو سے میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کو اپنی زبان میں بیان کر نے کی جسارت کرتا رہتا ہوں لہٰذا اس کالم میں نہ تو ان کےاس انٹرویو کا خلاصہ ہے اور نہ ہی ان کی پریس ٹاک کا متن بلکہ اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں راقم نے جو کچھ اخذ کیا، وہ پیش خدمت ہے۔ میں نے چوہدری نثار علی خان کی اہم قومی ایشوز پر رائے کو’’ آف دی ریکارڈ‘‘ ہی رہنے دیا ہے لیکن اس ملاقات کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتوں کو قلمبند کر رہا ہوں جن کا آف دی ریکارڈ گفتگو سے کوئی تعلق نہیں۔ چوہدری نثار علی خان کے مخالفین کی یہ رائے ہےکہ مسلم لیگ (ن) سے ان کی راہیں جدا ہونے کے بعد طویل خاموشی سے ان کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا ہے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ چوہدری نثار علی خان اپنی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں اپنا بینک بیلنس اور جائیداد بڑھانے کی بجائے دیانت داری کی وجہ سے عوام میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہیں میدان سیاست میں جو عزت و وقارحاصل ہوا ہے بہت کم سیاست دانوں کو نصیب ہوا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کا ہدف ان کا حلقۂ انتخاب ہے، وہ اپنی تمام تر توجہ حلقہ کے عوام پر دے رہے ہیں،’’ بریگیڈئیرفتح علی خان حویلی‘‘ کے دروازے عام لوگوں کے لئے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں ،ان کی یادداشت کمال کی ہے، نئی نسل کو ان کے آبائو اجداد کا ذکر کرکے اسے گرویدہ بنانا کوئی ان سے سیکھے۔ چوہدری نثار علی خان نے بھی تبدیل ہوتی ملی سیاسی صورت حال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ہے، وہ بظاہر موروثی سیاست کی مخالفت کرتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ اپنے ہونہار صاحبزادے چوہدری تیمور علی خان کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب چوہدری نثار علی خان نے بندہ ناچیز ، طاہر خلیل ، عامر الیاس رانا ، طارق محمود سمیر اور میزبان حسن ایوب سے چوہدری تیمور علی خان کے ملکی سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں رائے طلب کی تو سب نے ان کے سیاست میں حصہ لینے کے حق میں رائے دی۔ چوہدری تیمور علی خان جنہوں نے امریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے، اس کے حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہےکہ اسی یونیورسٹی سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیم حاصل کی تھی۔وہ امریکہ میں اپنی پر کشش ملازمت چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس آگئے ہیں اور اپنے والد کے سیاسی معاون کے طور پر کام شروع کر دیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کا سرِدست کوئی امکان نظر نہیں آتا، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ لندن مقیم مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کے لئے اپنے دروازے بند کر لئے ہیں۔(جاری ہے)

تازہ ترین