• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اس وقت معیشت کے سخت دبائو کا سامنا ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ چیلنجوں کے ساتھ امکانات بھی ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل کرنا سیاسی اعتبار سے حکومت کے لئے بھاری ہو سکتا ہے مگر حالات کی سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا موجودہ پروگرام جاری رکھا جائے۔ چنانچہ ایک جانب وزیراعظم شہباز شریف عوامی سطح پر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل کیا جائے گا، دوسری جانب انہیں یہ احساس بھی ہے کہ ان شرائط پر عملدرآمد کے نتیجے میں عام آدمی کو مہنگائی کے نئے سیلاب سمیت معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر اسلام آباد نے امریکی حکام سے کہا ہے کہ وہ اپنا سفارتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے پر قائل کرے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی محکمہ خزانہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ایشیا رابرٹ کپروتھ سے ملاقات کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس معاملے میں حمایت کی درخواست کی۔ امریکہ کی جانب سے کچھ عرصے سے آنے والے پیغامات کو سامنے رکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ واشنگٹن کو پاکستان کی مشکلات کا اندازہ ہے اور وہ اس اسٹریٹیجک محل وقوع رکھنے والے ملک کے ساتھ مل کر خطے کو المیوں اور بدامنی کی طرف جانے سے روکنے کی کوششوں پر توجہ دے رہا ہے ۔ بدھ کے روز امریکہ کی طرف سے جو اشارہ پاکستان کو دیا گیااس کا یہ مفہوم واضح ہے کہ اگرچہ اسلام آباد نے روسی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کیپ کرنے (فکس ریٹ پر رکھنے) کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں تاہم وہ رعایتی نرخوں پر روس سے تیل خرید سکتا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پاکستان بھی اس رعایت کا فائدہ اٹھا سکتا ہے جو واشنگٹن نے روس سے تیل کی خریداری کے ضمن میں معاہدے کے دستخط کنندہ ملکوں کو دے رکھی ہے۔ واضح رہے کہ 03دسمبر 2022ء کو جی سیون اور یورپی یونین کے ممالک نے روسی تیل کے لئے 60 ڈالر فی بیرل کی پرائس کیپ متعین کی تھی۔ اقدام کا مقصد ماسکو کو تیل سے حاصل ہونے والی آمدن یوکرین کے خلاف جنگ پر صرف کرنے کے قابل نہ چھوڑنا بتایا جاتا ہے۔ چونکہ یورپ اور امریکہ نے روس سے خام تیل کی خریداری بند کر رکھی ہے اس لئے کنٹرولڈ قیمت خرید سے امریکی حمایت یافتہ معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص پاکستان کے متاثر ہونے کا امکان اس لئے بڑھ گیا ہے کہ اسلام آباد عام حالات میں روسی تیل کا خریدار نہیں رہا ہے۔ منڈیوں پر نظر رکھنے والے مبصرین اس ماہ کے اوائل میں پاکستان کو خبردار کر چکے تھےکہ مستقبل قریب میں اسے ایندھن کی کمیابی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جبکہ روس سے تیل کی خریداری میں پاکستان کے لئے ڈالر کی قلت مسئلہ نہیں بنے گی۔ اس منظرنامے میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید کی رحیم یار خان آمد نے کئی امکانات روشن کئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شیخ محمد بن زاید نے وزیراعظم شہباز شریف سے کہا ہے کہ آپ تیاری کریں یو اے ای پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ چاندنہ ایئرپورٹ پر ملاقات کے دوران فریقین کے درمیان تاریخی تعلقات اور مشترکہ تعاون بڑھانے کے مواقع کا جائزہ لیا گیا جبکہ متعدد علاقائی و بین الاقوامی امور بھی زیر غور آئے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ دوست ممالک کے تعاون اور داخلی انتظامی امور کی درستی سے مملکت خداداد کی مشکلات دور ہو جائیں گی۔ تاہم ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کے لئے اپنے تمام شعبوں کی کمزوریاں دور کرنے اور فعالیت پر خاص توجہ دینا ہوگی۔

تازہ ترین