• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چہ میگوئیاں ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔ ہونے والا کیا، عملاً ہو چکا۔ یہ دوست ممالک کی بھیک ہے، جس نے باقاعدہ اعلان روک رکھا ہے۔ اس وقت جب کل پاکستانی قرض پچاس ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا،76وزرا کے ساتھ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا مالک ہے۔ تیرہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد خون آلود وجود کی آخری ہڈیاں نچوڑ رہا ہے۔

المیہ یہ نہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ”مے ڈے“ کہنے والا بھی کوئی نہیں۔

خدا جانے باقی ماندہ برصغیر کے حالات کیاہیں۔ پاکستان مگر معاشی ہی نہیں، اخلاقی دیوالیہ پن سے بھی دوچار ہے۔ریاضت اور دیانت میں بنگلہ دیشی اور بھارتی کہیں بہتر ہیں۔پاکستانی قانون شکنی، ہڈحرامی اور حرام خوری کی اوّلین مثال بن چکے۔

قانون شکنی رواج بن چکی۔ بااثر طبقات میں قانون کی پیروی کرنے والا احمق اور بزدل سمجھاجاتا ہے۔ دو برس قبل ممبر صوبائی اسمبلی مجید اچکزئی کو ہٹ اینڈ رن کیس میں بری کر دیا گیا۔دن دہاڑے انہوں نے سڑک پہ ڈیوٹی نبھاتے وارڈن کو کچل ڈالا تھا۔ کیمرے میں ریکارڈ ہوا، ملک گیر کوریج ملی۔دسمبر 2012ء کو کراچی میں قتل ہونے والے شاہ زیب خان قتل کیس کووائرل ہونے کے باوجود انجام تک نہ پہنچایا جا سکا۔ اکثر کیسز میں با اثر قاتل زبردستی دیت تھما دیتے ہیں۔انکار کرنے والے کو انصاف تو ملتا نہیں،خوں بہا بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ یونانی فلسفی کا یہ قول پاکستان پہ صادق آتا ہے کہ قانون تو مکڑی کا جالا ہے۔ کمزور پھنستے، طاقتور پھاڑ کے نکل جاتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کیس میں جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا، اس کے بعد ہماری کیا عزت رہ گئی۔

ریمنڈ ڈیوس کیس عالمی جہتیں رکھتا تھا۔ مجید اچکزئی ہٹ اینڈ رن کیس اور شاہ زیب قتل کیس میں مگر کیا ہوا۔ ہر با اثر شخص قانون کے شکنجے سے بچ نکلتاہے۔اگر ملکی و عالمی میڈیا میں پوری طرح ہائی لائٹ ہونے والے کیسز کی صورتِ حال یہ ہے تو گمنام کیسز میں کیا ہوتا ہوگا؟رسالت مآب ﷺنے فرمایا تھا، جو قوم طاقتورمجرموں کو سزا نہ دے سکے، وہ تباہ ہوجاتی ہے۔ پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔ دو سال قبل تک اشتہاری مجرم قرار پانے والے حکومت چلا رہے ہیں۔سب کیسز معاف ہو چکے۔

ملک میں انصاف کی صورتِ حال یہ ہے کہ اوپن اینڈ شٹ کیسز تاخیری حربوں کے سبب کئی کئی سال لٹکتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے روات میں باپ کی وفات کے بعد بڑا بھائی یہ چاہتا تھا کہ بہنوں کو وراثت کے نام پر مونگ پھلیاں تھما دی جائیں۔ تیسرا سال ہے رخسانہ بی بی اور اس کی بہنیں عدالتوں میں رل رہی ہیں۔اسلام آباد میں روات اور راولپنڈی میں مصریال جیسے علاقے منشیات فروشوں کی جنت بن چکے۔ منشیات استعمال کرنے والے نوجوانوں میں دن دوگنی، رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ رہی پولیس تو

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

چند ماہ قبل ایک باخبر شخص نے اخباری تراشے دکھائے”جب سے نیا ایس ایچ او تعینات ہوا ہے، ہر روز واردات ہوئی۔“بگڑتے معاشی حالات کے پیشِ نظر غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ صر ف تیل مہنگا ہونے سے مہنگائی اور بے روزگاری کی جس عظیم لہر نے جنم لیا ، اس میں جرائم تیزی سے بڑھے۔ واویلا کرنے والے دیہاتیوں کو رازداری سے پولیس والے یہ مشورہ دیتے ہیں، ڈاکوؤں کو موقع پر مار ڈالا کرو۔ بعد میں کسی مدد کی امید نہ رکھنا۔

اندھی تقلید کا معاشرہ۔کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ کبھی نہیں کہتا کہ اس کے لیڈر نے کبھی ایک بھی بات غلط کی۔ اگر کہہ دے تو پارٹی اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ ہمیشہ تاویل پیش کی جاتی ہے۔ پڑھے لکھے سیاسی کارکن بھی کبھی نہیں سوچتے کہ ان کے لیڈر نے یہ کیا کہا۔ انہیں صرف یہ یقین درکار ہوتاہے کہ اچھا، میرے لیڈر نے یہ کہا؟ آؤ پھر تاویل تراشیں ا س کے حق میں۔ اسے بتایا جائے کہ نہیں یہ تمہارے لیڈر نے نہیں، مخالف لیڈر نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی 360کے زاویے پر مخالف دلائل پیش کر دیے جائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہنگام قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن پر میرے والد ہارون الرشید نے عمران خان سے اختلاف کیا کرلیاتو کئی لوگ مرنے والے ہو گئے۔ لیڈر سے اختلاف منع ہے۔

بظاہر بہت نیک نام لوگوں سے بھی آپ مالی لین دین کریں تو خوفناک انکشافات ہوتے ہیں۔ لوگوں کو ساری عمر کی اپنی نیک نامی داؤ پہ لگنے کا بھی خوف نہیں۔یہ معاشرہ بے حد بگڑ چکا۔ اسے اب کوئی شاک چاہیے۔ ہاں البتہ دیانت کی چند مستثنیات موجود ہیں۔ سبکدوش سپاہی شوکت کی طرح۔ تین سال میرے پاس کام کرنے کے بعد شوکت صاحب واپس ڈومیلی جانے لگے۔ جب حساب کتاب تمام ہو چکا اور جب میں انہیں الوداع کہنے لگا تو بولے: ایک بات بھول گئے آپ، ایک بار پچیس ہزار ادھار لیے تھے۔ بوڑھے سپاہی پہ مجھے بے حد پیار آیا۔پاکستان اگر اب تک قائم ہے تو شوکت صاحب جیسے فقیروں کی بدولت۔

المیہ یہ ہے کہ ڈوبتے ہوئے جہاز کے عرشے پہ جشن جاری ہے۔گاہےگاہے انہیں یاد آتا ہے کہ جہاز ڈوب رہا ہے، پھرلذتِ کام و دہن۔

سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں

کیوں نہ جشن منائیں۔ ڈوبتے ہوئے جہاز سے ان کے فرار کی تیاریاں بے عیب ہیں۔

تازہ ترین