اقوام متحدہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ثالثی عدالت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے 63 سالہ پرانے سندھ طاس معاہدے سے جڑے کشن گنگا اور رتلے ڈیم تنازعے کی سماعت شروع کردی ہے۔ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دریائے جہلم اور چناب پر متعدد ڈیم بنانے کے جارحانہ عزائم پر مبنی منصوبے بنا رکھے اور شروع کررکھے ہیں جن کا نتیجہ پاکستان کے بے آب و گیاہ ہونے کی شکل میں نکلے گا۔ 1960ءمیں عالمی بنک کی ثالثی میں سندھ طاس آبی معاہدہ طے پایا تھا جس پر صدر پاکستان ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دستخط کئے تھے۔اس موقع پر امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں طرف کے کاشتکاروں کیلئے خوشحالی لائے گا، امن، خیرسگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا تاہم معاہدے میں مشکلات اس وقت شروع ہوئیں جب بھارت نے دریائے جہلم اور چناب پر پن بجلی کے منصوبے بنانے شروع کئے۔ 330میگاواٹ کا کشن گنگا دریائے جہلم جبکہ رتلے منصوبہ دریائے چناب پر واقع ہے جس کے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 850 میگاواٹ ہے۔ عالمی بنک اس سے قبل 1978ءمیں اسی نوعیت کے سلال ڈیم اور 2007ءمیں بگلیہار ڈیم کے تنازعات حل کرواچکا ہے۔ امید ہے کہ اقوام متحدہ کی متذکرہ ثالثی عدالت سندھ طاس معاہدے پر تفصیلی غوروخوض کرتے ہوئے مغربی دریاؤں پر پاکستان کے حق کو معاہدے کے طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی روح کے مطابق فیصلہ سنائے گی تاہم سندھ طاس معاہدے کے تحت متعلقہ پاکستانی اور بھارتی حکام سال میں ایک مرتبہ ملاقات کرنے اور اپنے تنازعات حل کرنے کے پابند ہیں بھارت کو معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رہنا چاہئے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ کئی جنگوں اور کشیدگی کے باوجود یہ اپنی جگہ برقرار ہے جس کی بھارت کو بہرحال پابندی کرنی چاہئے۔