• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت تباہ حال ہے اور اس کو سدھارنے کیلئے ہر قربانی درکار اور یہ قربانی دینے کا ہی جذبہ تھا کہ گزشتہ اپریل میں بدترین معاشی حالات کے باوجود حکومت کوقبول کر لیا گیا ۔ اس وقت قبول کر لیا گیا جب سابق حکومت کے کرتا دھرتا خود یہ تجزیہ بیان کر رہے تھےکہ عمران خان نے معیشت میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں ۔ اس صورتحال کو جلد از جلد ماضی کی داستان بنانے کی غرض سے جنیوا میں جو کانفرنس منعقد ہوئی اس میں مرکزی نکتہ تو پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے امداد فراہم کرنا تھا ۔ حکومت نے اس حوالے سے اچھا نتیجہ حاصل کیا ،دنیا کی طرف سے معاشی مدد کے وعدے بھی کئے گئے۔ اس ضمن میں پاکستان میں قائم دوست ممالک کے سفارتخانوں نے کلیدی کردار ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان کے حالات کی درست منظر کشی کرتے ہوئے اپنے ممالک کو پاکستان کی ضروریات سے آگاہ کیا ۔ مگر اب اس سے اگلا مرحلہ درپیش ہے کہ ان معاشی وعدوں کو حقیقت کے روپ میں کیسے لے کر آنا ہے ؟ کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان کے مشکل حالات میں دنیا اس قسم کے وعدے کر تو لیتی ہے مگر اس کے بعد ایفائے عہد کروانا جوئے شیر لانےکے مترادف بن جاتا ہے ۔اگر ہم افغانستان میں سوویت مداخلت کے وقت سے شروع ہو جائیں اور پھر مشرف کی آمریت کے دوران جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا زور تھا ، چلتےچلیں تو دیکھیں گے کہ جو وعدے ہوئے ان میں سے تمام پورے تو کیا ہونا تھےاس کے برعکس ہمیں’’ ڈومور‘‘ کے مطالبات ہی تواتر کے ساتھ سننے کو مل رہے تھے۔پھر جب مشرف کی آمریت اپنے انجام کو پہنچ گئی تو فرینڈز آف ڈیمو کریٹک پاکستان کے نام سے کانفرنس ہوئی وعدےہوئے مگر وفا نہ ہو سکے ۔ جہاں پر ان ادوار میں وعدے وفا نہ ہونے کا شکوہ دوست ممالک سے کیا جاسکتا ہے وہیں پر یہ حقیقت بھی تسلیم کرناپڑے گی کہ ایسے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے جو صلاحیتیں درکار تھیں وہ اس وقت کی پاکستانی حکومتوں کے پاس نہیں تھیں ۔ اسلئے بہت ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے ہر مرحلے کی حکمت عملی تیار کرے ،دوست ممالک کے مفادات اور ضروریات کا تجزیہ کیا جائے ،پاکستان میں موجود ممالک کے سفارت خانوں سے لے کر ان ممالک کے دارالحکومتوںتک میں موثر لابنگ کی جائےتا کہ یہ معاشی تعاون حقیقت میں ڈھل سکے ۔ یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ۔ دوست ممالک یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور وہ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی اقدامات کريں گے کیونکہ پاکستان میں اگر دوبارہ 2018 والا ہی کوئی کردار ادا کیا گیا ،عمران پروجیکٹ کو دوبارہ شروع کیا گیا تو ایسی صورت میں دنیا سے تعلقات ورکنگ ریلیشن شپ تک ہی محدود ہوکر رہ جائینگےکیونکہ دنیا نے سابق پی ٹی آئی حکومت کا قطر اورسعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ رویہ دیکھ رکھا ہے ۔چین جیسا دوست ملک منہ تکتا ہی رہ گیا تھا اور سی پیک کا پہلا مرحلہ جو 2023 میں مکمل ہوجانا چاہئے تھا، اس کے سب سے بڑے منصوبے کا سابق حکومت کی پالیسی کی باعث ابھی تک آغاز ہی نہیں ہو سکا ۔ ایسےسفارتی اور اقتصادی رویوں کی وجہ سے دنیا عمران خان حکومت پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں تھی اور نہ ہوگی ۔ اگر پاکستان کی معاشی بحالی درکار ہے تو موجودہ سیاسی تسلسل ہی اس کی ضمانت بن سکتا ہے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اگر صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ہوگیا تو ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے پاس رونے دھونے کے سوا اور کچھ نہیں بچے گا ۔ ان حالات میں موجودہ حکمراں جماعتوں کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیںکہ وہ زیادہ سے زیادہ ذمہ دارانہ سیاسی رویہ اختیار کریں اور اگلےسیاسی دنگل کیلئے خود کو مکمل طور پر تیار کر لیں ۔مریم نواز کی آمد اس سلسلے کی ایک کڑی محسوس ہوتی ہے کیونکہ حکومت میںہونے کےباعث وزیراعظم شہباز شریف کیلئے تنظیم سازی اور جلسے جلوس کی طرف متوجہ ہونے کیلئے وقت نکالنا کافی مشکل ہوگا۔ نواز شریف کی وطن آمد سے قبل سیاسی اور قانونی معاملات پر تمام تیاریاں مکمل ہونی چاہئیں تاکہ سیاسی فضا شفاف مقابلہ کیلئے تیار ہو۔ مسلم لیگ ن کو تنظیمی طور پر ابھی مسائل درپیش ہیں۔ بہت سارے عہدوں پر ابھی تک تقرریاں نہیں ہوئیں۔ اسی لئے میڈیا محاذ پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسکو بہت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیکریٹری اطلاعات کے ہمراہ ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات اور اسی نوعیت کے عہدیداروں کی ایک پوری ٹیم موجود ہونی چاہئے جو اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جائے ۔ مريم نواز کی سیاسی مشکلات کو رفع کرنے کی غرض سے انکی اپنی ایک پوری سیاسی ٹیم تیار ہو نی چاہئے ،کیوں کہ اگلے انتخابات چاہے مرحلہ وار ہو ںیا بیک وقت انکا مثالی نتیجہ حاصل کرنے کیلئے مثالی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین