• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ آج سے تقریباً پینتالیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ مَیں اُن دنوں اسلام آباد میں ایک سائنسی تحقیقاتی ادارے میں بحیثیت ٹیکنیکل فوٹو گرافر ملازمت کرتا تھا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ آتش جوان تھا اور پھر مَیں غیر شادی شدہ تھا، اس لیے ہر قسم کی گھریلو ذمّے داریوں سے بالکل آزاد تھا۔ خوب فراغت کے لمحات میسّر تھے۔ اسی فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راول پنڈی کی ایک مارکیٹ میں مَیں نے اپنا ذاتی فوٹو اسٹوڈیو کھول لیا اور صبح سے شام تک کے لیے وہاں ایک ملازم رکھ لیا۔ شام کو آفس سے آنے کے بعد اسٹوڈیو کا کام میں سنبھال لیا کرتا۔ 

میری دکان دو حصّوں پر مشتمل تھی، ایک حصّے میں خوب صورت تصویروں سے مزیّن شوکیس، کرسیاں اور کائونٹرز بناکر اسے شوروم کی شکل دے دی تھی، جب کہ دوسرے حصّے میں اسٹوڈیو تھا، جہاں لوگوں کی تصاویر کھینچی جاتی تھیں۔ دونوں حصّوں کے درمیان ایک دروازہ تھا، جسے تصویر اتارتے وقت بند کردیا جاتا۔ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کا زمانہ تھا۔ تصویر اتارکر پرنٹ بنانے تک کا تمام عمل مکمل اندھیرے میں کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اسٹوڈیو کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا ڈارک روم بھی تھا، جہاں فوٹو گرافی سے متعلق آلات اور اس میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز وغیرہ رکھے رہتے تھے۔ 

میرے گھر والے ان دنوں وادئ کہسار مَری میں رہائش پذیر تھے، اس لیے مَیں نے اپنی رہائش کا عارضی انتظام اسٹوڈیو ہی میں کر رکھا تھا۔ یہ نہ صرف فوٹو اسٹوڈیو تھا، بلکہ اکثر مَری سے آنے والے میرے دوستوں کے لیے ایک ریسٹ ہائوس بھی تھا۔ جب بھی کوئی دوست کسی غرض سے راول پنڈی آتا، تو میرے ہی اسٹوڈیو میں ٹھہرتا۔ اُن دنوں کسی قسم کی دہشت گردی یا چوری چکاری کا کوئی خوف نہیں تھا، اس لیے رات سوتے ہوئے دکان کا شٹر مکمل بند کرنے کے بجائے نیچے سے ایک ڈیڑھ فٹ کھلا چھوڑدیتا، تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہو، البتہ اسٹوڈیو اور شوروم کا درمیانی دروازہ بند کردیتا۔

ایک روز حسبِ معمول اسٹوڈیو میں سویا اور صبح اٹھ کر جب شوروم کا دروازہ کھولا تو وہاں ایک خارش زدہ کتّے کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا، وہ میری کرسی پر بڑے آرام سے سو رہا تھا، شاید جِلدی بیماری کے سبب اس کے تقریباً تمام بال جَھڑچکے تھے اور جسم پر جا بہ جا پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ یہ مکروہ اور دل خراش منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ غصّے میں جوتا اٹھا کر اسے دے مارا، جو اسے لگنے کے بجائے اچھل کر کائونٹر پر سجے ہوئے فریم پر جا لگا اور شیشے کے کئی فریم ٹوٹ کرچکنا چُور ہوگئے۔ میرے حملے سے بچ کر کتّا تو فوراً ہی بھاگ کھڑا ہوا، مگر میرا ناقابلِ تلافی نقصان بھی کرگیا۔ 

میں شٹر اوپر کرکے اس کے پیچھے بھاگا۔ آس پاس کے دکان داروں کے لیے یہ نہایت مضحکہ خیز اور دل چسپ منظر تھا۔ ایک نے تو آواز لگائی، ’’جاوید صاحب! کیسا زبردست خوب صورت گاہک آیا ہے صبح صبح، آج پورے دن بڑی برکت ہوگی۔‘‘ ایک دکان دار نے استفسار کیا۔ ’’اسے شناختی کارڈ کے لیے تصویر بنوانی تھی یا رشتے کے لیے فوٹو!‘‘ سب ہی اس عجیب و غریب صورتِ حال اور میری بے بسی پر ہنس رہے تھے اور مَیں اپنے نصیبوں کو رو رہا تھا۔ کشن اور کرسی سے بہت کراہیت محسوس ہورہی تھی۔ 

کشن کو تو آگ لگادی، چوں کہ کتّا براہِ راست کرسی پر نہیں بیٹھا تھا، اس لیے اسے سرف اور فنائل سے اچھی طرح دھو دیا۔ اسی روز میراایک قریبی دوست مَری سے آیا، اسے اپنی دکھ بھری داستان سنائی، تو بجائے دکھ بانٹنے کے اس نے بھی میرا خوب مذاق اڑایا۔ دراصل میرا یہ دوست بہت رحم دل اور حسّاس طبیعت کا ہے، خصوصاً جانوروں کے حوالے سے۔ کہیں راہ چلتے کسی لاوارث کتّے کے پلّے پر نظر پڑ جائے، تو اس کا وارث بننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتا، فوراً اس کے دل میں پدرانہ شفقت مچل اٹھتی ہے۔ کہیں سے کوئی پلاسٹک کا پیالہ خریدکر اور اس میں دودھ ڈال کر اسے پلائے بغیر وہاں سے نہیں ٹلتا۔

اُس رات میرا یہ دوست میرے ساتھ ہی اسٹوڈیو میں ٹھہرا۔ دوسری صبح جب میری آنکھ کھلی، تو دیکھا وہی کتّا پھر میری کرسی پر دبک کر چین کی نیند سو رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی میرا خون کھول اٹھا، مَیں نے فیصلہ کیا کہ آج اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ بھلے تنظیمِ حقوقِ حیوان والے مجھے پھانسی پر ہی کیوں نہ چڑھادیں۔ کتّے کی نیند میں مخل ہوئے بغیر مَیں نے اپنے دوست کو جگایا تاکہ وہ بھی اس دل نشین منظر سے فیض یاب ہو۔ مجھے اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ کتّے کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر کہیں میرے دوست کی ممتا جاگ اٹھی، تو پھر وہ اسے کبھی مارنے نہیں دے گا، لیکن جوں ہی اس کی نظر اس بدبخت کتّے پر پڑی، نہایت کراہیت سے ناک چڑھا کر بولا۔ ’’اسے مار ہی دو تو اچھا ہے۔‘‘ 

اس کی طرف سے این او سی ملتے ہی اسے مارنے کی ایک زبردست تدبیر میرے ذہن میں آئی۔ میرے پاس اس وقت فوٹو گرافی میں استعمال ہونے والے جو کیمیکلز تھے، ان میں ایک انتہائی زہریلا کیمیکل ’’پوٹاشیم فیری سائنائیڈ‘‘ بھی موجود تھا۔ پیکنگ پر احتیاط کی خصوصی ہدایات درج تھیں۔ سوچا، اگر کسی طرح یہ زہر اسے کھلادوں، تو اس بن بلائی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل جائے گا۔ لہٰذا اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مَیں نے اسے نہایت پیار سے پچکار کر دکان سے باہر نکالا۔ میری کھوٹ سے پاک محبّت پا کر وہ بڑے لاڈ سے دُم ہلانے لگا۔ 

بیکری قریب ہی تھی، وہاں سے دو پیسٹریز خریدیں۔ خیال تھا کہ ایک میں زہر ڈال کر اسے کھلادوں گا، تاکہ وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے اور اس کے مرنے کی خوشی میں دوسری خود کھالوں گا۔ زہریلی پیسٹری جوں ہی اس کے سامنے رکھی، وہ بھوکا تو تھا، فوراً ہی نگل گیا۔ اب میں اس کی موت کا منتظر تھا، مگر پیسٹری کھانے کے بعد بھی للچائی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے دُم ہلانے لگا، تو میں نے اپنے حصّے کی پیسٹری بھی زہرآلود کرکے اسے پیش کردی۔ اسے بھی وہ فوراً ہی چٹ کرگیا۔ 

اب مجھے یقین تھا کہ چند لمحوں میں اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجائے گی، لہٰذا اس خدشے کے پیشِ نظر کہ اگر اس کی موت میری دکان کے سامنے ہوگئی، تو میری سفّاکیت اور اس کی مظلومیت کا اشتہار نہ بن جائے، یہ سوچ کر ایک بڑا سا پتھر لے کر اس کی طرف اچھالا تاکہ وہ کہیں دور جاکر اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کرے۔ وہ میرے وار سے خود کو بچا کر دور بھاگا اور اگلی گلی میں مڑگیا۔ واپس آکر میں نے کرسی کو بھی جلادیا۔ اس کے بعد وہ نہیں آیا، میں نے بھی شکر کیا کہ بلا ٹلی۔

اس واقعے کے کوئی پانچ چھے ماہ بعد ایک شخص میری دکان پر کیمرے کی فلم خریدنے آیا۔ اس کے ساتھ سفید بالوں والا ایک خوب صورت کتّا بھی تھا۔ وہ شخص فلم لے کر واپس جانے لگا، تو کتّے کا قد اور اس کا انداز دیکھ کر مجھے کچھ شک گزرا کہ کہیں یہ وہی کتّا تو نہیں، جسے میں نے زہر دیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس گاہک نے بتایا کہ ’’یہ ہمارا پالتو کتّا ہے۔ کچھ عرصے قبل خارش کی بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا، چوں کہ پالتو تھا، اس لیے اسے مارنے کو ہمارا دل نہیں مانا۔ اسے بھگانے کی بہت کوشش کی، مگر یہ نہیں گیا، بلکہ گلیوں ہی میں اِدھرادھر آوارہ پھرتا رہا، پھر کچھ دنوں بعد یہ خودبخود ٹھیک ہونا شروع ہوگیا۔ 

اس کے خوب صورت بال بھی نکل آئے اور اب یہ بالکل ٹھیک ہوگیا ہے۔‘‘ اس پر میں نے اسے بتایا کہ یہ خودبخود ٹھیک نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے علاج کی خاطر میرے پاس بھیجا تھا، چوں کہ اس کا علاج اس زہر میں تھا، جو میرے پاس موجود تھا، مَیں نے اسے مارنے کے لیے جو زہر دیا، وہ اس کے لیے تریاق ثابت ہوا اور نادانستگی میں اس کا علاج ہوگیا۔ پھر زہر دینے کا تمام واقعہ اسے سنادیا۔ اگرچہ اس بات کو عرصہ گزرگیا، مگر مَیں اس حیرت انگیز اور دل چسپ واقعے کو آج تک فراموش نہیں کرسکا۔ (محمد جاوید، اقبال ٹائون، راول پنڈی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔