• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

1970ء کے عشرے کا یہ واقعہ جی پی او، خوشاب میں پیش آیا۔ اُس زمانے میں افیون کی خرید و فروخت پر پابندی عاید نہیں تھی۔ بیوپاری آزادانہ یہ کاروبار کرتے تھے، بلکہ مقامی افراد کے علاوہ دوسرے ضلعے کے بیوپاری بھی افیون کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔اُن ہی دنوں ایک بیوپاری نے، جس کا تعلق کسی اور ضلعے سے تھا، ٹھیکا لے کر جی پی او کے نزدیک اپنا کاروبار شروع کردیا، جو ٹھیک ٹھاک چلنے لگا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد اُسے کاروبار میں نقصان ہونے لگا اور اس کا کام نصف سے بھی کم رہ گیا۔ اُسے اندازہ ہوگیا کہ کوئی اس کا مال چوری کرکے فروخت کرنے لگا ہے۔ 

اس نے اپنے طور پرکھوج لگانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ کچھ عرصے بعد اتفاق سے اُسی کے ضلعے سے تعلق رکھنے والے ایک تھانے دار دوست کی تعیناتی خوشاب میں ہوئی، تو اُس نے چوری کی وجہ سے کاروبار میں ہونے والے نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے چور کا کھوج لگانے کی درخواست کی۔ تھانے دار نے اس کی شکایت پر تحقیقات کیں، تو پتا چلا کہ چوری کی یہ وارداتیں ایک ماہر جیب تراش کرتا ہے، مگر اُسے رنگے ہاتھوں پکڑنا مشکل تھا، کیوں کہ وہ خوشاب کا بہت ماہر جیب تراش تھا۔ 

وہ اپنے اڈّے میں شاگردوں کو جیب تراشی کی تربیت بھی دیتا تھا۔ وہ پانی سے بھری بالٹی میں گلاب کا پھول ڈال دیتا، جب پھول پانی کے نیچے تہہ میں چلا جاتا، تو اُسے اپنی دو انگلیوں سے اس طرح اٹھاتا کہ پانی میں ذرا بھی لہر پیدا نہیں ہوتی اور سطح بالکل ساکن رہتی۔ اس کے علاوہ بلیڈ سے کسی کی بھی جیب بڑی تیزی سے کاٹ کر انتہائی مہارت سے ہونٹوں کے نیچے بنی جگہ میں دبا لیتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی دیگر طریقۂ واردات میں ماہر تھا اور اپنی غیرمعمولی مہارت کی وجہ سے ہمیشہ بچ جاتا، کبھی پکڑا نہ گیا۔

بہرحال، ٹھیکے دار کی شکایت پر تھانے دار نے اُس جیب کترے پر نظر رکھنے کے لیے ایک سپاہی کی ڈیوٹی لگادی۔ سفید کپڑوں میں ملبوس سپاہی نے اس کی نگرانی شروع کردی اور بالآخر ایک روز افیون فروخت کرتے ہوئے اُسے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔ سپاہی نے اسے حراست میں لے لیا اور افیون اسی کی مٹّھی میں بند کرکے اُس پر ایک رومال باندھ کے تھانے دار کے سامنے پیش کردیا۔ 

تھانے دار نے سپاہی کو شاباش دی، پھر جیب کترے کے ہاتھ پر بندھا رومال کھلواکر اُس کی مٹھی دیکھی، تو وہ بالکل خالی تھی۔ سب حیران رہ گئے، اسے حراست میں لے کر بڑے فخر سے آنے والا سپاہی بھی بہت شرمندہ ہوا۔ اسے پریشانی لاحق ہوئی کہ کہیں الٹا اس کے اوپر کیس نہ بن جائے۔ جیب کترے نے تھانے دار کے سامنے بیان دیا کہ ’’میرے پاس تو افیون تھی ہی نہیں، اگر ہوتی تو میری مٹّھی سے برآمد ہوجاتی۔‘‘ بالآخر یہ بات ایس پی صاحب تک پہنچ گئی، تو سپاہی نے افیون فروش کو علیٰحدہ کمرے میں بلاکر کہا ’’مَیں نے خود تمہارے سامنے افیون مٹّھی میں بند کی تھی، مجھے سچ سچ بتائو، تم نے افیون کیسے غائب کی۔‘‘ 

اس پر جیب کترے نے کہا ’’میں سچ سچ بتا دیتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ تھانے دار میرے خلاف کوئی کیس نہ بنائے، بلکہ مجھے کھانا کھلا کر باعزت چھوڑدے۔‘‘ سپاہی نے تھانے دار کو یہ بات بتائی، تو وہ رضامند ہوگیا، تب جیب کترا اُسی میز کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، جہاں اس کی مٹّھی کھولی گئی تھی۔ جیب کترے نے کہا ’’تھانے دار صاحب! ذرا دیکھیے، سامنے دروازے سے کون آرہا ہے۔‘‘

 تھانے دار نے غیرمتوقع طور پر اچٹتی نگاہ دروازے کی طرف ڈالی اور دوسرے ہی لمحے اس کی طرف دیکھا، تو افیون کی ڈلی اس کی مٹھی میں تھی۔ تھانے دار نے اسے حیرت اور استعجاب سے دیکھتے ہوئے کڑک لہجے میں پوچھا کہ ’’یہ کیسے ہوا؟‘‘ تو اس نے فوراً اپنی شعبدہ گری کا راز اُگل دیا۔ ’’تھانے دار صاحب! جب رومال کھول کر میری مٹھی کھولی جارہی تھی، تو اُس وقت میں نے بڑی تیزی سے افیون کی ڈلی میز کے نیچے کونے میں چپکا دی تھی۔‘‘ حالاں کہ تھانے دار نے پورے کمرے کی اچھی طرح تلاشی لی تھی، مگر اس طرف اس کا ذہن گیا ہی نہیں۔ لہٰذا، شرط کے مطابق تھانے دار نے اسے کھانا کھلایا اور خود دروازے تک چھوڑنے گیا۔

اس جیب کترے کی دل چسپ باتیں اور واقعات آج بھی علاقے کے بزرگ اپنے بچّوں کو سُناتے ہیں اور اُسے ’’افیون بابا،، کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اُس کے انتقال کے بعد اُس کے شاگردوں نے اُس کا مقبرہ بھی تعمیر کراویا، جہاں اُس کے شاگرد آج بھی اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، کیوں کہ کہتےہیں کہ آخری عُمر میں اُس نے اس قبیح فعل سے توبہ کرلی تھی اور صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوگیا تھا۔ (ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔