• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانتہ رابعہ، گوجرہ

سمعیہ افتخار جیسی زندہ دل اور ہنس مُکھ لڑکی کی صحبت میں جو چار لمحے بھی گزار لیتا، وہ اُس کا گرویدہ ہوجاتا۔ اُس کے ٹھگنے قد، سانولی رنگت، عام سی شکل و صُورت کو اگر کسی چیز نے بہت خاص بنایا تھا، تو وہ اُس کی یہی خوش خلقی اور میلہ لُوٹ لینے والی ادا تھی۔ متوسّط گھرانے سے تعلق بھی اُس کی بھاری بھرکم ٹیکنیکل ڈگری کی وجہ سے پس منظر میں رہ گیا۔ انٹرن شپ ہی میں سرکار کی چاکری کے لیے منتخب ہونا، سونے پر سہاگا ثابت ہوا۔

وہ، جسے کوئی تین ایک سال قبل کوئی منہ لگانا پسند نہ کرتا تھا، اب اپنی محنت کے بل بُوتے پر بہت آگے نکل گئی تھی بلکہ اب تو معاملہ الٹ تھا، لوگ باگ اُس سے بات کرنے کے لیے وقت مانگتے اور وہ اکثر و بیش تر مصروف ہی پائی جاتی۔ پھر …دو چار سالوں میں سول سروس کے اچھے مستحکم ناموں میں سے ایک نام سے ہمیشہ کے لیے نتھی ہو کر نکاح کے بول پکّے کروا کر اُسے اسسٹنٹ کمشنر کی مسز بننے کاشرف بھی حاصل ہوگیا۔ شاید نہیں، حقیقتاً دولت بہت سے عیبوں کی پردہ پوشی ہی نہیں کرتی، بلکہ اُن ہی عیبوں کو ہُنر بھی بنادیتی ہے۔

سمعیہ کا ٹِھگنا قد، اونچی ہیل والے جوتے کی وجہ سے اب عیب یا کمی نہ رہا تھا بلکہ اکثر بیگمات تو محفلوں میں اب مسز سمعیہ افتخار تارڑ کے بوٹے قد کی بھی بات کرتیں، تو کچھ یوں سراہتیں۔ ’’خُود کو کیری کرنا تو کوئی مسز تارڑ سے سیکھے۔ قد چھوٹا، بوٹا سا ہے، لیکن ہائی ہیل کی سینڈل پہن کر چلتی ہیں، تو چال میں کیا غضب کا اعتماد اور تمکنت ہوتی ہے۔‘‘جب کہ سانولی رنگت تو نکاح سے پہلے ہی سنہری دمکتی رنگت میں تبدیل ہو چُکی تھی۔ بھئی، سچ ہے، پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ ہاں، سمعیہ کی خوش مزاجی جُوں کی تُوں تھی۔ حالاں کہ قل قل کرتے، حلق سے اُبلتے قہقہے اُن کی ایلیٹ کلاس میں وارا نہیں کھاتے تھے۔

وہاں تو تنی ہوئی گردن، چہرے پہ رعب و دبدبہ، ماتھے پر شکنیں گویا مطلوبہ صفات تھیں۔ ہر کسی سے آگے بڑھ کر ملنا رُتبے کے منافی سمجھا جاتا تھا، خواہ سامنے سگی بہن ہی کیوں نہ ہو اور جپھی ڈال کر گرم جوشی سے ملنا تو جیسےسول سروس میں ممنوع تھا، لیکن کیا کرتی، یہ سمعیہ کے بس ہی میں نہ تھا۔ وہ کچھ دیرتو پیشہ وارانہ تقاضے نبھاتی، پھر ہلکاسام ُسکراتی اورپھر… وہی سمعیہ اوروہی اُس کی کھی کھی کھی،شرارتی آنکھیں اور بچّوں کی سی معصومیت لیے بلند بانگ قہقہے…کہاں کا پروٹوکول اور کہاں کی کمشنری، وہ سب بھول جاتی۔

مگر پھر ایک روز قدرت نے کچھ ایسا کر دکھایا، جو یقیناً کسی اور کےلیے ہرگز ممکن نہ تھا کہ بس اچانک ہی ایک دورے سے واپسی پر سمعیہ افتخار کے ہونٹوں پر جیسے خاموشی کا چار من وزنی قفل پڑ گیا۔ اُس کی شرارتی آنکھوں سے اکثر ہی آنسوؤں کے جھرنے بہتے دکھائی دینے لگے۔ گفتگو، مُسکراہٹ سے شروع تو ہوتی، مگر ختم ہمیشہ ٹھنڈی آہوں، سسکیوں ہی پر ہوتی۔ لیکن وجہ سے سہی لاعلم تھے۔ سب نے کوشش کی، ہر کوئی ہی پوچھتا، لیکن سدا بہار زندہ دِلی، زندگی سے دُور ہی رہی۔

مگر…پھر کچھ عرصے بعد اِس راز سے بھی پردہ اُٹھ ہی گیا۔ اگلے روز پانچ فروری عام تعطیل کا دن تھا۔ ساری قوم نرم و گرم بستروں میں گُھسی انڈین فلمیں، ڈرامے دیکھنے میں مگن تھی۔ کالونی کے ہرگھر میں ایک سرکاری ہرکارہ، مسز تارڑ کی دوسرے شہر میں تبدیلی اور الگے روز سہہ پہر کی چائے سول کلب میں مل بیٹھ کر پینے کا سندیسہ لایا۔ ’’کیا دو سال مکمل بھی ہو گئے؟‘‘ ’’ہائے مسز تارڑ جیسا اب کہاں کوئی ملے گا؟‘‘جیسے استعجابیہ فقروں کے ساتھ جب ساری بیگمات سول کلب پہنچیں، تو ہلکی پُھلکی،میٹھی نرم سی گفتگو یک دَم ہی سسکیوں کے طوفان میں ڈھل گئی۔ مسز تارڑ اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ 

مائیک ایک طرف رکھ دیا گیا تھا کہ اُن کی آواز میں سخت کرب اور اذیّت ہی اذیّت تھی۔ ’’سچّی بات تو یہ ہے کہ مجھے کشمیر اور کشمیریوں سے متعلق کچھ بھی نہیں معلوم تھا، کیوں کہ مجھے جو معلومات دی گئی تھیں، وہ زیادہ ترگوگل اور سوشل میڈیا ذرائع سے حاصل کردہ اعدادو شمار ہی پر مبنی تھیں۔ اتنے سالوں میں کتنے کشمیری شہید ہوئے، کتنے لا پتا ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے علاوہ کبھی کبھار تقریروں میں کشمیریوں کی جدوجہد اور کشمیر سے یک جہتی جیسے کچھ الفاظ بھی سُننے پڑھنے کو مل جاتے تھے، لیکن مَیں نےخُود سے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ ’’مسئلہ کشمیر آخر ہے کیا؟‘‘ 

وہ کیا وجوہ ہیں کہ جن کے سبب کشمیریوں کی تین نسلیں آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے نہیں تھکتیں، ہزاروں شہادتوں کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالتیں۔ کیوں، بانیٔ پاکستان، حضرت قائد اعظم نے اِسے پاکستان کی شاہ رگ قرار دیا؟ مجھے تو بس اتنا پتا تھا کہ ریاست کے ڈوگرہ راجے نے زیادتی کی اور ایک مَن چاہا فیصلہ کشمیری عوام پر مسلّط کر دیا، لیکن اُس فیصلے کو عوام قبول کیوں نہیں کرتے، اِس کا جواب مجھے اپنے مظفّرآباد کے دورے کے قیام کے دوران ملا۔‘‘ مسز تارڑ نے اتنا کہہ کے قریب پڑا پانی کا گلاس اُٹھا کے منہ سے لگایا اور ایک ہی سانس میں سارا غٹا غٹ پی گئیں۔

’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تارڑ صاحب نے مجھے بتایا کہ (سمعیہ افتخار کے ہونٹ پانی کا پورا گلاس پی کر بھی خُشک تھے، مگر اُنھوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا) ’’جس پہاڑ کے پاس تم کھڑی ہو، اُس کے بالکل پشت پر مقبوضہ کشمیر ہے۔‘‘ تو مَیں نے اُن کی بات سُنی ضرور تھی، مگر کچھ خاص نوٹس نہیں لیا تھا اور کندھے اُچکا کر آگے بڑھ گئی تھی۔ لیکن پھر اُسی لمحے ہماری ملازمہ بھاگتی ہوئی ائی کہ ’’بیگم صاب! مانو بے بی نے واش روم کا دروازہ اندر سے بند کر لیا یے اور وہ بہت اونچی آواز سے رو رہی ہیں۔‘‘ ماہ رُخ تارڑ، عرف مانو، میری پونے دو سال کی بیٹی، میری جان، میرے جگر کا ٹکڑا، میری زندگی، میری روح …مَیں جس طرح بدحواسی سے اندھا دھند لمبے لمبے ڈگ بَھرتی بلکہ گِرتی پڑتی اندر کی طرف بھاگی، مَیں ہی جانتی ہوں۔ مجھے لگ رہا تھا، میرا ہر قدم مَن مَن وزنی ہوگیا ہے۔ 

تارڑ صاحب کے دوست اور ہماری میزبان فیملی گھر پر موجود نہ تھی۔ واش روم کا دروازہ کیسے کُھلنا تھا اور کس نے کھولنا تھا، مجھے کچھ سجمھ نہیں آرہا تھا۔ مجھےتوبس مانو کی دل دوز چیخیں سُنائی دے رہی تھیں۔ وہ شاید گھبراہٹ کے باعث زیادہ ہی چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ اُسے ہماری ہدایات بھی سُنائی نہیں دے رہی تھیں۔ مجھ سے اس کا رونا بالکل برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ تب ہی مَیں نے خُود بھی زور زور سےرونا شروع کردیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم، تارڑ صاحب کس کو لے کر آئے اور کیسے دروازہ کُھلا، لیکن اُن چند لمحات نے بس جیسے میرے اندر کا دروازہ بھی کھول دیا۔‘‘

’’اِس واقعے سےپہلےتو مجھے سمجھ ہی نہیں تھی کہ (مسز تارڑ نے چند لمحات کے توقف کے بعد پھر بات شروع کی) جن پہاڑوں کے پیچھے دنیا کی جنّت کے باسی لاک ڈاون کا شکار ہیں، جن کی آزادی پر اُسی طرح قفل ڈال دئیے گئے ہیں، جیسے میری مانو کے دروازے پر پڑا تھا، وہ کیسے زندگیاں گزارتے بلکہ اپنی اپنی زندگیوں کے دِن پورے کرتے ہیں، وہ کیا محسوس کرتے ہیں، اُن کے لیے تو دِن کی روشنی بھی، رات کے گھور اندھیروں ہی کے مثل ہے، تو تب کہیں جا کر مجھے اِن پہاڑوں کے قیدیوں کی چیخیں سُنائی دیں۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ ہم سب نے تو جیسے بےحسی و بےشرمی کا ایک لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ہم ناحق ہی اپنے آپ کو اِن مظلوموں کاسب سے بڑا ہم درد سمجھتے ہیں۔ 

بھلا ہمارے ہاتھوں کی یہ زنجیر اُن قیدیوں کےکس کام کی۔ کیا مَیں دس لوگوں کے ساتھ مل کر مانو کے لیے نعرے لگاتی، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یک جہتی کی زنجیر بناتی تو کیا میری مانو باہر آجاتی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ تو پھر آپ ہی کہیے، ہمارےیہ کھوکھلے نعرے، اِن مظلوم و محکوم کشمیریوں کے کس کام کے۔ ارے… کوئی تو اُٹھے۔ کوئی تو اُٹھے، کوئی تو محمّد بن قاسم، طارق بن زیاد کی طرح اُٹھے، اور اُن کو اس طویل ترین قید سے رہائی دلوائے…‘‘ مسز تارڑ کی آواز بھرّا گئی تھی۔ جذبات کی شدّت سے اُن کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اب وہ بآوازِ بلند رو رہی تھیں اور آگے بیٹھی سب خواتین دَم بخود، گُنگ تھیں کہ وہ تو ابھی تک کشمیریوں کی رہائی کے لیے بھارتی فلموں، اسٹار پلس کے ڈراموں ہی سے رہائی حاصل نہیں کرپائیں، تو کوئی محمّد بن قاسم، طارق بن زیاد کہاں سے تیار ہو۔

سنڈے میگزین سے مزید