• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں دعویٰ نہیں کرتا کہ ابراہیم کاکا میرا دوست ہے۔ اس سے میری اچھی دعا سلام ہے۔ ہم پڑوسی ہیں، ہم عصر ہیں، ہم عمر ہیں۔ انکے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ چاروں بچے پڑھے لکھے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا کیلیفورنیا میں ایک مشہور کمپنی میں سافٹ وئیر انجینئر ہے۔ ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہے، اس نے امریکی شہریت لے رکھی ہے۔ ایک بیٹا لمبے عرصے سے کینیڈا میں ڈاکٹر ی کےپیشے سےوابستہ ہے۔ ایک بڑے اسپتال میں آرتھو پیڈک سرجن ہے۔ اسکے پاس کینیڈا کی شہریت ہے۔ تیسرا بیٹا آسڑیلیا میں ہے۔ اس نے آسڑیلین شہریت لے لی ہے۔ ایک یونیورسٹی میں اینتھرو پالوجی یعنی علم الانسان کا پروفیسر ہے۔انکی بیٹی ڈاکٹر ہے۔ان کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں دبئی میں پریکٹس کرتے ہیں۔ سب بچے خیر سے شادی شدہ ہیں۔ انکے بال بچے ہیں۔ ابراہیم کاکا اور انکی بیوی گھر میں تنہا رہتے ہیں۔ 80 برس کے لگ بھگ ہیں۔ دونوں ہی ذیا بیطس کے مریض ہیں۔ دل کے عارضہ میں بھی مبتلا ہیں۔ جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے دونوں میاں بیوی گھر سے باہر نہیں نکلتے ۔ابراہیم کاکامرکزی سرکار میں جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اچھی خاصی پنشن ڈاکٹروں ، نرسوں، فزیوتھراپسٹ اور گھر میں کام کاج کرنے والوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ بچے انکو ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم بھیجتے رہتے ہیں۔ ابراہیم کاکا کا شمار اپنے دور کے سخت گیر اور رعب داب والے افسروں میں ہوتا تھا۔ خود گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑی میں نہیں بیٹھتے تھے اور نہ خود دروازہ کھول کرگاڑی سے اترتے تھے۔ تین نائب قاصد فائلوں کا انبار اٹھاکر ان کی کوٹھی تک آتے تھے۔ بڑے افسروں کی روایت کے مطابق رات گئے تک سرکاری کوٹھی میں دفتر لگاتے تھے۔ اپنے دبدبے سے لوگوں کو متاثر کرتے تھے اور خود بھی خوب محظوظ ہوتے تھے۔ وقت کسی کیلئےنہ رکتا ہے اور نہ کسی کو بخشتا ہے۔ ساٹھ برس کے ہوئے ،ریٹائر ہوئے، سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل گیا۔

آپ جب بھی ابراہیم کاکا سے ملیں وہ اپنے بچوں کا دکھڑا لے کر بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ ابراہیم کاکا جب افسر تھے تب خود ہی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجا تھا۔ وہ پھر کبھی پلٹ کر پاکستان نہیں آئے۔ انہوں نے امریکہ، کینیڈا اورآسڑیلیا کی شہریت لےلی۔ وہیں ملازمت پر لگ گئے۔ شادی رچالی۔یہ صورت حال ابراہیم کاکا اور ان جیسے بے شمار والدین کا المیہ ہے۔ لفظ المیہ میں نے سوچ سمجھ کرلکھا ہے۔ قدرت کے دستور کوجب ہم نظر انداز کردیتےہیں، قدرت کے دستور سے سبق نہیں سیکھتے، قدرت کے دستور کو سمجھنے سے گریز کرتے ہیں تب بہت سی کیفیات ہمیں المیہ محسوس ہونے لگتی ہیں۔ چرند اور پرند کی طرح ہم انسان بھی قدرت کے دستور کے تابع ہوتے ہیں۔ چرند اور پرند کی طرح ہم جنم لے کر وجود میںآتے ہیںاور ایک روز چرند اور پرند کی طرح اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں۔ پرندے جان کی بازی لگاکر گھونسلے میں پڑے ہوئے انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ انڈوں سے چوزے باہر آجانے کے بعد ان کی پرورش کرتے ہیں۔ دوردرازسے چونچ میں دانے دباکر آتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ آج چھوٹے، کل بڑے، بچے جب اڑنے کے لائق ہوتے ہیں، پر پھڑ پھڑانے لگتے ہیں اور ایک مرتبہ گھونسلے سے اڑ جانے کے بعد پھر کبھی اپنے گھونسلے کی طرف لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ یہ دیکھنے کیلئے بھی نہیں آتے کہ جس پرند جوڑے کی وہ اولاد ہیں، وہ کس حال میں ہے۔ قدرت کے دستور میں پرند اور چرند کوسوچنے ، سمجھنے کی جبلت ملی ہی نہیں ہے۔ قدرت کے دستور کے مطابق سوچنے سمجھنے کی جبلت کا استحقاق، امتیازی اختیار صرف انسان کوحاصل ہے۔ خصوصی جبلت کے استحقاق سے دستبردار ہوجانے کے بعدہم انسانوں کے بچے ہماری طرف لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ اپنا گھر بسا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ عین چرند اور پرند کی طرح۔بڑھاپا اور بڑھاپے کے ساتھ بیماریوں کا لگنا لازمی امرہے۔ نوجوانی اور جوانی سے ہمیں بڑھاپے کی آمد کیلئے تیار رہنا ہے۔ تنہائی سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیاری کرلینی چاہئے۔ آپ پوچھیں گے کہ کیا ایسا کرنے سے ہم بڑھاپے کوٹال سکتے ہیں؟ نہیں۔ہرگز نہیں۔ عمر کے ادوار کی تقسیم میں بڑھاپا سب ادوار پر بھاری ہوتا ہے۔ آنے کے بعدبچپن اور جوانی کی طرح بڑھاپا چند برسوں بعد لوٹ نہیں جاتا، بڑھاپا ہمیں اپنے ساتھ لےجاتا ہے۔ آپ حیران ہورہے ہونگے کہ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں مایوس کن باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں اور یہ کہ ملک سچ مچ اپنے نازک ترین دور میں داخل ہوچکا ہے، وہ اس طرح کہ ہم روزی روٹی کی طرح سانسیں بھی مانگے تانگے کی لے رہے ہیں اور تم ہوکہ جینے مرنے کی باتیں لے بیٹھے ہو۔ میں آپ کی بات کے ایک ایک لفظ سے متفق ہوں۔ میں اپنے ملک میں سیاسی غل غپاڑہ روز اول، چودہ اگست انیس سوسینتالیس سے دیکھتا آرہا ہوں۔ مجھے آپ کی سیاست میں بڑھاپے کی تنہائی اور پسماندگی سے مڈبھیڑ کے واضح ثبوت ملتے رہے ہیں۔ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں، میں نے ایسے ایسے عمر رسیدہ ممبروں کو براجمان دیکھا ہے جو نہ ٹھیک سے بول سکتے ہیں اورنہ ٹھیک سے سن سکتے ہیں۔ اونگھتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے اسمبلی کے ممبر نہیں بنتے۔ وہ اپنے بڑھاپے کے ایام کی ہولناکیوں سے فرار اختیار کرنے کیلئے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی پناہ لے لیتے ہیں۔ پاکستان میں گنے چنے لوگ بوڑھے نہیں ہوتے جوکہ قانون ساز اسمبلیوں کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بوڑھوں اور عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ وہ سب بڑھاپے کی ہولناکیوں سے عارضی فرار حاصل کرنے کے لئے ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوکر اسمبلی کا رخ نہیں کرتے ۔یہ ان کی بساط سے باہر کی بات ہے۔

تازہ ترین