ہماری سیاسی تاریخ میں بائیکاٹ کا لفظ نیا نہیں ہے ۔ لیکن کچھ عرصے سے اس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طورپر گزشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائیکاٹ کیا تو بہت سے ذہنوں میں جہاں دیگر سوالات پیدا ہوئے وہیں اس سوال نے بھی سر اٹھایا کہ آخر بائیکاٹ کیوں کیا جاتا ہے، اس سےکیا حاصل ہوتا ہے، اس کی تاریخ میں کیا مثال ملتی ہے اور کیا دیگر اقوام میں بھی اس کا چلن ہے؟
ان سوالات کے جواب جاننے سے پہلے ہمارے لیے لفظ بائیکاٹ کا معنی جاننا ضروری ہے۔اگرچہ طویل عرصے سے ہمارے ہاں انگریزی زبان کا یہ لفظ رائج ہوچکا ہے ،لیکن ماضی میں اس کے لیے مقاطع کا عربی مترادف استعمال ہوتا تھا جس کا مطلب ہے قطعِ تعلّق کرلینا یا ناطہ توڑ لینا۔ دونوں زبانوں میں یہ لفظ دراصل ایک اصطلاح کا درجہ رکھتا ہےجو ایک عمل کی نشان دہی کرتی ہے۔
بائیکاٹ یا قطع ِتعلّق عام طورسے دو بنیادی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے،اوّل یہ کہ کسی عمل سے خود کو، اپنے گروہ، ادارے یا ملک کو علیحدہ کرکے اسے ناپسندیدہ قرار دے کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا جائے اور اس طرح فریق ِمخالف کو اپنا رویّہ ،طرزِ عمل یا موقف تبدیل کرنے پر مائل یا مجبورکیا جائے۔دوم،فریقِ مخالف کو اقتصادی ، سماجی یا سیاسی نقصان پہنچایا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی بہت سی کوششیں کام یاب رہی ہیں۔
بائیکاٹ، جدید تاریخ
بائیکاٹ یا مقاطع ایک قسم کا احتجاج ہےجو اخلاقی، سماجی یا سیاسی وجوہ کی بنا پرکسی، حکمتِ عملی، ملک، فردیا ادارے کے خلاف کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی مصنوع خریدنے ،کوئی خدمت لینے،کسی سیاسی یا سماجی عمل میں حصّہ لینےیا کوئی پالیسی ماننے سے انکار کرنے کا اجتماعی عمل ہوتاہے۔ قدیم اور جدید تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ جدید تاریخ میں اس کا باقاعدہ آغازانیسویں صدی میں اسکاٹ لینڈ میں ہوا۔ اس زمانے میں زمین کے بڑے بڑے حصّوں کے مالک انگریز اپنی غیر موجودگی میں اپنی جائیداد کی دیکھ بھال کرنے اور کرایہ داروں سے کرایہ وصول کرنے کے لیے لینڈ مینیجر کے طورپر کسی کی خدمات حاصل کرتے تھے۔
ایسا ہی ایک شخص چارلس بائیکاٹ بھی تھا۔ 1880میں اس کی نگرانی والی زمین پر کرایہ دار کسانوں کی فصلیں اچھی نہیں ہوئیں تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے زمین کے کرائے میں پچّیس فی صد کمی کردی جائے، لیکن زمین کا مالک انہیں صرف دس فی صد تک چھوٹ دینے پر راضی تھا۔ جب کسانوں نے اس کی پیش کش ٹھکرادی تو اس نے چارلس بائیکاٹ کو حکم دیا کہ جو کسان اس شرح سے کرایہ ادا نہ کرے اسے زمین سے بے دخل کردیا جائے۔
جب چارلس بائیکاٹ نے اس حکم پر عمل کرنا شروع کیا تو مقامی لوگوں نے اجتماعی طورپر فیصلہ کیا کہ چارلس اور اس سے وابستہ ہر شخص سے ہر طرح کا تعلق توڑ لیا جائےگا، جو قطعہ اراضی اس طرح سے کسی کسان سے خالی کرایاجائے اسے کوئی دوسرا کسان کرائے پر نہیں لے گااورکوئی بھی تجارتی ادارہ یا فرد اسے کوئی شئے، حتی کہ اشیائے خورونوش بھی فروخت نہیں کرے گا۔ اسے ڈبلن جانے پر مجبور کیا گیا ،اس نے امریکا جانے کی بھی کوشش کی ،لیکن ہر جگہ اس کی بدنامی آڑے آتی اور جو بھی تجارتی ادارہ اس کے ساتھ تجارتی روابط رکھتا تھا اس کا حشر ’’بائیکاٹ‘‘ کی طرح کرنے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
چند مثالیں
آکسفرڈ انگلش ڈکشنری میں 1888میں یہ لفظ پہلی بارشامل کیا گیا۔اس عمل کی دوسری اہم تاریخی مثال بھی برطانیہ ہی سے متعلق ہے۔ہوا کچھ یوں کہ1763 میں فرانس اور ہند کی جنگیں لڑنے کی وجہ سے برطانیہ کافی قرض تلے دب چکا تھا اور اسے نو آبادیات میں اپنی افواج رکھنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔چناں چہ اس نے امریکی نوآبادیات پر مزید محصولات عاید کرنے کا فیصلہ کیا اور شکر سمیت کئی اشیا پر نئے محصولات عاید کردیےجو بہ راہ راست اور اندرونی تھے۔
اس مقصد کے لیے 1765 میں اسٹیمپ ایکٹ کے نام سے ایک قانون بنایا گیا تھا۔ لیکن نو آبادیات نے اس کے خلاف مزاحمت کی اور یہ نعرہ لگایا کہ نمائندگی کے بغیر محصولات انہیں منظورنہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف نو آبادیات کی اسمبلیز کو محصولات عاید کرنے کا اختیار ہے۔یادرہے کہ اس وقت تک ان کو پارلیمان کے اراکین کے انتخاب کا حق حاصل نہیں تھا۔ اس تحریک نے اتنا زور پکڑا کہ نو آبادیات نے برطانیہ کے مال کا مقاطع کردیا، محصولات جمع کرنے والوں کو بری طرح ہراساں کرنے لگے، حتی کہ ان میں سے اکثر کو اس عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔نو آبادیات کی اس کام یاب کوشش کے بعد 1766میں اسٹیمپ ایکٹ واپس لے لیا گیا تھا۔
غلامی ختم کرنے کے لیے سرگرم حلقے جب 1791 میں انگلستان کی پارلیمان کوغلامی کے خلاف قانون منظور کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے کیریبیائی شکر کا بائیکاٹ کرنے کی مہم شروع کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے شراب،کافی،تمباکو اور کپاس کے بائیکاٹ کی بھی مہم چلائی۔یاد رہے کہ ان اشیا کی پیداوار کے لیے غلاموں سے کام لیا جاتا تھا۔
اس تحریک کے عروج پر چار لاکھ گھرانوں نے غلاموں کی تیار کردہ شکر کا استعمال بند کردیا تھا۔ دو برسوں میں اس کی متبادل شکر کی فروخت دس گنا تک بڑھ چکی تھی جسے آزاد انسان تیار کرتےتھے۔ برطانوی راج میں غلامی ختم کرنے کی تحریک چلانے والوں کو اس وقت پوری طرح تک کام یابی نہیں ملی تھی ،چناں چہ 1820کے عشرے میں انہوں نے ایسی ہی دوسری کوشش کی تھی۔
موٹر کار تیار کرنے والی امریکا کی مشہور زمانہ کمپنی ، فورڈ کے خلاف 1927میں یہودیوں نے ایک کام یاب بائیکاٹ کی مہم منظم کی تھی۔اس ادارے کے مالک ہنری فورڈ ڈیئر بورن انڈی پینڈینٹ نامی ایک ہفت روزہ کے بھی مالک تھےجو یہود مخالف پالیسی رکھتا تھا۔ اس میں شایع ہونے والے بعض مضامین کے بارے میں ہنری فورڈ کا اگرچہ یہ کہنا تھا کہ وہ انہوں نے نہیں لکھے تھے، تاہم وہ ان کے نام سے شایع ہوئے تھے۔ اس پر وہاں ہنگامہ کھڑا ہوا اور فورڈ کمپنی کی تیار کردہ موٹر کاروں کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ اس پر ہنری نے نہ صرف معافی مانگی بلکہ وہ ہفت روزہ ہی بند کردیا۔
تحریک ترکِ موالات
گاندھی جی اور ابوالکلام آزاد نے1920ء میں غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات) کی تجویز پیش کی، یہ ایک ہتھیار تھا، جو اس جدوجہد میں استعمال کیاگیا۔ انگریز حکومت اس کا پورا پورا نوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ پورا ملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے ۔ اسے تحریک عدم تعاون بھی کہا جاتا ہے۔
تحریکِ ترک موالات کا پس منظر یہ ہے کہ تحریک خلافت میں متوقع کام یابی کے بعد مسٹر گاندھی نے دوسرا قدم اٹھا یا اور 1920ء میں تحریکِ ترک موالات کا اعلان کر دیا ۔ 28؍ مئی 1920ءکو بمبئی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا جس میں عدم تعاون کے اصول کو تسلیم کیا گیا۔2جون 1920ءکو الٰہ آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں ہندو اور مسلمان راہ نمائوں نے شرکت کی۔ اس میں تحریک ترکِ موالات کی قرار داد اصولاً منظور کرلی گئی اور اس طریقہ کار کو مسٹر گاندھی کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا۔اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی ترتیب دی گئی جودرج ذیل افراد پر مشتمل تھی:
(1) مسٹر گاندھی(2) مولانا محمد علی جوہر
(3) مولانا شوکت علی(4) مسٹر کھتری
(5) مولانا حسرت موہانی(6 ) ڈاکٹر کچلو
لیکن مقاطع کی یہ تحریک کچھ زیادہ پُر اثر ثابت نہیں ہوسکی تھی۔
منٹگمری بس بائیکاٹ
جدید تاریخ میں اگرچہ سیاسی،سماجی اور اقتصادی مقاطع کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں،لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 1950 کی دہائی میں ہونے والا ایک بائیکاٹ اگر جدید تاریخ کا سب سے موثر مقاطع کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
امریکا کی سیاہ فام خاتون،روزا پارکس کو سول حقوق کی خاتونِ اوّل اور سول حقوق کی تحریک کی ماں کہا جاتاہے جنہوں نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکا میں احتجاجی مظاہروں کی آگ بھڑکائی۔ اُن کے ایک عمل کے نتیجے میں شہریوں کے خلاف تعصب پر مبنی قوانین ختم ہوئے، ماٹن لوتھر کنگ جونیئر قومی راہ نمابن کر اُبھرے اور نسلی مساوات کے لیے ایک طویل جدوجہد نے دوبارہ زور پکڑلیا۔
روزا نے 1934ء میں ہائی سول ڈپلوما حاصل کیا۔ معاشی بحران کے دور میں افریقی امریکیوں کے لیے ملازمت کے مواقع بہت کم تھے اور انہیں مسلسل نسلی بدسلوکی کاسامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ روزا پارکس اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ گورے آپ کوگڑبڑکرنے کاالزام دیتے حالاں کہ آپ بالکل ایک نارمل انسان کی طرح عمل کررہے ہوتے۔اس قسم کے امتیازی سلوک کاسامنا انہیں اکثر کرنا پڑتا تھا۔ایک روز روزا پارکس منٹگمری کے ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں ڈیوٹی کرنےکے بعد گھر واپس جارہی تھیں کہ بس میں سفیدفام امریکی کے لیے اپنی نشست چھوڑنےسےانکار کردیا ۔ ڈرائیور نے پولیس کو بلایا۔
انہوں نے روزا کومنٹگمری کے ٹرانسپورٹیشن قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں قید کر کے جیل بھجوادیا۔ وہ ایک سوڈالر کی ضمانت پر رہاہوئیں اور مقدمے کی سماعت پانچ دسمبر کو طے پائی۔ چھٹی کے دن سیاہ فام برادری کے سات ہزار ارکان پارکس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے جمع ہوئے ۔ اس اجتماع کے نتیجے میں منٹگمری امپروومنٹ ایسوسی ایشن کاقیام عمل میں آیا اور 26سالہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اس کےصدر منتخب ہوئے۔
مرٹن لوتھرکنگ نے ایک روزہ بس بائیکاٹ کی کال دی جسے بعد میں بڑھادیا گیا کیوں کہ پارکس کومجرم قرار دے کر 10ڈالر جرمانہ اور چارڈالر عدالتی فیس ادا کرنے کی سزاسنائی گئی تھی۔ اُنہوں نے یہ رقم ادا کرنے سے انکار کیا اور منٹگمری سرکٹ کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ ان واقعات کے نتیجے میں روزا پارکس اور ان کے شوہر کواپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور انہیں ڈرایا دھمکایابھی گیا۔آخر کار 1956ء میں یونائیڈاسٹیٹس ڈسٹرکٹ کورٹ نے فیصلہ دیاکہ بسوں میں نسلی امتیاز غیر آئینی تھا۔
سپریم کورٹ نے اس رولنگ کو قائم رکھا اور منٹگمری کی بسوں میں یہ امتیاز ختم کرنے کاحکم دیا۔ افریقی امریکیوں نے 381دن تک احتجاج کیا اس دوران اُن میں سے کوئی بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سوارنہیں ہوا۔ آخر کار بسوں میں نشستوں کی تخصیص ختم ہوگئی۔ منٹگمری کے پرامن بائیکاٹ نے سول حقوق کی تحریک کومہمیزدی اور سارے جنوبی امریکا میں غیر متشدد مہمات کے لیے مثال بن گیا۔ مارٹن لوتھرکنگ جونیئر نے دیگر مقامات پر بھی دھرنوں اور بائیکاٹس کی قیادت کی۔ وہ منٹگمری والے واقعےکے بعد قومی سطح پر مشہور ہوگئے تھے۔
روزا پارکس نے دسمبر 1955ء میں جو انکار کیا تھاوہ امریکی ریاست جارجیا کی رہنے والی سیاہ فام عورتوں کا انکار تھا کہ انہیں رنگ ونسل کی بنیاد پر ہر روز توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس روز بھی وہ دفتر سے فارغ ہوکر گھر جانے کے لیے ایک بس پر سوار ہوئی تھیں جس کے دو حصے تھے۔ ایک سفید فام افراد کے لیے اور دوسرا سیاہ فاموں کے لیے۔ ان دونوں کے درمیان ایک لکیر حائل تھی۔ روزا پارکس چُپ چاپ اپنے حصے میں جاکر بیٹھ گئیں۔ اس وقت کے قانون کے مطابق مسافروں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں سیاہ فاموں کو اپنی نشست چھوڑ کر کھڑا ہونا پڑتا تھا۔
جب بس میں سفید فام افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا تو کنڈکٹر کے حکم پرتین سیاہ فاموں کو اپنی نشستوں سے اٹھنا پڑا اور ان کی نشستوں پر سفید فام بیٹھ گئے۔ اگلی باری روزا پارکس کی تھی۔ کنڈکٹر نے ان کی طرف دیکھا، لیکن روزانے یہ حکم ملنےکےباوجود نشست چھوڑنے سے انکار کردیا۔روز روز کے توہین آمیز سلوک نے انہیں دیوانا بنا دیا تھا۔ انہوں نے غصے سے پوچھا 'کہ کیا میں اپنی نشست کسی اور کے لیے صرف اس لیے چھوڑ دوں کہ اس کی رنگت سفید ہے؟
کنڈکٹر نے روزا کو بتایا کہ یہ انکار قانون کی نظر میں جرم ہے اور اس جرم پر وہ گرفتار ہوسکتی ہیں۔ روزا نے کہا کہ 'میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں، لیکن ظلم کےسامنے جھکنے سے انکار کرتی ہوں۔ بس پھر کیا تھا پولیس کو بلایا گیا، روزا گرفتار ہوئیں اور یوں چند دنوں کی جیل اور 14 ڈالر جرمانے کی سزا ہوئی۔ اس سزا کے بعد امریکا میں ہر طرف ایک سناٹا طاری ہوگیا۔ اسی سناٹے کی کوکھ سے ایک مزاحمت نے جنم لیا، ایک ایسی مزاحمت جو انسانی برابری کی تحریک کا ایک اہم سنگِ میل بن گئی۔
مارٹن لوتھر کنگ اس تحریک کے روح رواں تھے۔ یہ مزاحمت 382 دنوں پر محیط رہی۔ اس دوران شہر کا ایک سیاہ فام بھی بس پر سوار نہیں ہوا۔ یہ لوگ نسلی امتیاز کی تحریک کا ہر اوّل دستہ بن چکے تھےٰ۔ ایک طویل آئینی جنگ، مظاہروں، مزاحمت، ہنگاموں جیسے کئی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد بلآخر یہ جدوجہد کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔بس کے اندر کھینچی ہوئی لکیر مٹ گئی۔ اب کوئی بھی سیاہ فام اپنی نشست چھوڑنے کا پابند نہیں تھا اور یوں ظالمانہ قانون ایک عورت کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرسکا۔
'ظلم اسی وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے، روزا پارکس نے یہ کہہ کر ظلم کی ساری نفسیات کو آشکار کردیا۔ روزا پارکس کو امریکا کے بلند ترین سول ایوارڈسے نوازا گیا۔ دو درجن سے زاید جامعات نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ ان کی مزاحمت اور ان کے انکار نے کم زوروں کو ایک نیا حوصلہ بخشا۔ انکار کا وہ لمحہ ان کی زندگی کا روشن ترین لمحہ بن گیا۔
مشرکین مکّہ کی جانب سے بائیکاٹ
حضورِ اکرم ﷺ کی دعوتِ اسلام پھیلنے لگی اور مشرکین کے تمام حیلے ختم ہوگئے اور انہوں نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مُطّلِب ہرصورت میں نبی کریم ﷺ کی حفاظت اور بچاؤ کا تہیہ کیے ہوئے ہیں توانہوں نے جمع ہوکر آپس میں بنی ہاشم اور بنی مُطّلِب کے خلاف یہ عہد وپیمان کیا کہ ان سے شادی بیاہ کریں گے ،نہ خرید وفروخت ۔ ان کے ساتھ اُٹھیں بیٹھیں گے ، ان سے میل جول رکھیں گے ، نہ ان کے گھروں میں جائیں گے، نہ ان سے بات چیت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہﷺ کو(معاذ اللہ) قتل کرنےکےلیے ان کے حوالے نہ کر دیں۔
مشرکین نے اس بائیکاٹ کی دستاویز کے طورپرایک صحیفہ لکھا جس میں اس بات کا عہد وپیمان کیا گیا تھا کہ وہ بنی ہاشم کی طرف سے کبھی بھی کسی صلح کی پیش کش قبول نہیں کریں گے، نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت برتیں گے جب تک کہ وہ ان کی مذکورہ شرط نہ مان لیں۔
یہ عہد وپیمان ہونے کے بعدمذکورہ صحیفہ خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مُطّلِب کے سارے افراد خواہ مسلمان رہے ہوں یا کافر سمٹ سمٹا کر شِعَبِ ابی طالب میں محبوس ہوگئے۔ یہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی بعثت کے ساتویں برس کا واقعہ ہے۔
تین سال شِعب ابی طالب میں:
اس مقاطع کےنتیجے میں حالات نہایت سنگین ہو گئے۔ غلّے اور سامان خوردنوش کی آمد بند ہوگئی۔ کیوں کہ مکّے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا اسے مشرکین لپک کر خریدلیتےتھے۔ اس لیے محصورین پربہت مشکلات آئیں۔ انہیں پتّے اور چمڑے کھانے پڑے۔ ان کے پاس بہ مشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی ، وہ بھی پس پردہ ۔
محبوس نفوس حرمت والے مہینوں کے علاوہ باقی ایام میں اشیائے ضرورت خریدنےکےلیے گھاٹی سے باہر نکلتے بھی نہ تھے اور پھر ان ہی قافلوں کا سامان خرید سکتےتھےجو باہرسے مکہ آتےتھے ،لیکن ان کے سامان کے دام بھی مکے والے اس قدر بڑھاکرخریدنے کے لیےتیار ہو جاتے تھے کہ محصورین کے لیے کچھ خریدنا مشکل ہوجاتا تھا۔
اس صورت حال کے باوجود حضورِ اکرم ﷺ اور دوسرے مسلمان حج کے ایام میں باہر نکلتے اور حج کے لیے آنے والوں سے مل کر انہیں اسلام کی دعوت دیتے۔ ان حالات میں پورے تین سال گزرگئے۔ اس کے بعد صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہد وپیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے۔ ان ہی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کر نے کی تگ و دو کی۔ اس کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئ کا ہشام بن عمرو نامی ایک شخص تھا۔
وہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا۔ اس نے ہم خیالوں کو جمع کرکے آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ صحیفہ چاک کرنا ہے۔ زہیر نے کہا: میں ابتدا کروں گا، یعنی سب سے پہلے میں ہی زبان کھولوں گا۔ صبح ہوئی تو سب لوگ حسب ِ معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے۔ زہیر بھی پہنچا۔ پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا: مکے والو!کیا ہم کھا نا کھائیں ، کپڑے پہنیں اور بنوہاشم تباہ وبرباد ہوں۔ نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے نہ ان سے کچھ خریدا جائے۔ اللہ کی قسم !میں بیٹھ نہیں سکتا یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کر دیا جائے۔
ابو جہل جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں موجود تھا، بولا تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کی قسم! اسے پھاڑا نہیں جاسکتا۔ اس پر زمعہ بن اسود نے کہا : واللہ! تم زیادہ غلط کہتے ہو۔ جب یہ صحیفہ لکھا گیا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہ تھے۔ اس پر ابو البختری نے گرہ لگا ئی : زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے نہ ہم راضی ہیں نہ اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے کہا : تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے، غلط کہتا ہے۔ ہم اس صحیفے سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس سے اللہ کے حضور براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر ہشام بن عمرو نے بھی اسی طرح کی بات کہی۔
یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا : ہونہہ۔ یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اس کا مشورہ یہاں کے بجائے کہیں اور کیا گیا ہے۔اس دوران حضرت ابو طالب بھی حرم پاک کے ایک گوشے میں موجود تھے۔ ان کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اس صحیفے کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے کیڑے بھیج دیے ہیں جنہوں نے ظلم وستم اور قرابت شکنی کی ساری باتیں چٹ کردی ہیں اور صرف اللہ عزوجل کا ذکر باقی چھوڑا ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ نے اپنے چچا کو یہ بات بتائی تو وہ قریش سے یہ کہنے آئے تھے کہ ان کے بھتیجے نے انہیں یہ خبر دی ہے، اگر وہ جھوٹا ثابت ہوا تو ہم تمہارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں گے اور تمہارا جو جی چاہے کرنا ، لیکن اگر وہ سچاثابت ہوا تو تمہیں ہمارے بائیکاٹ اور ظلم سے باز آنا ہوگا ۔اس پر قریش نے کہا: آپ انصاف کی بات کہہ رہے ہیں۔
جب ابوجہل اور باقی لوگوں کی نوک جھونک ختم ہوئی تو مطعم بن عدی صحیفہ چاک کرنے کے لیے اٹھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ واقعی کیڑوں نے اس کا صفایا کردیا ہے۔ صرف باسمک اللّٰھم باقی رہ گیا ہے اور جہاں جہاں اللہ تعالی کا نام تھا وہ بچا ہے، کیڑوں نے اسے نہیں کھا یا تھا۔اس کے بعد صحیفہ چاک ہوگیا۔رسول کریم ﷺ اور باقی تمام افراد شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ کی نبوت کی ایک عظیم الشان نشانی دیکھی ، لیکن ان کا رویہ وہی رہا۔