• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں نیٹ فلیکس پر انڈیا کی ایک پاکستان مخالف فلم ’’مشن مجنوں‘‘ ریلیز ہوئی ہے۔ایسی فلمیں عموماً جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں اور سادہ لوح عوام کو اپنی مرضی کا بیانیہ پیش کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں لیکن مذکورہ فلم ’بونگیوں‘ میں بھی لاجواب ہے۔فلم کی کہانی یوں ہے کہ 1970 کے عشرے کا پاکستان ہے، صدر ضیاالحق کی حکومت ہے اور کہوٹہ میں ایٹم بم بنایاجا رہا ہے۔انڈیا کو سن گن ملتی ہے تو وہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسی’’ را‘‘ کو یہ مشن سونپتا ہے کہ وہ پتا چلائیں کہ بم کہاں بنایا جارہا ہے؟ اس مقصد کے لئے پنڈی میں موجود مسلمانوں کے بھیس میں ایجنٹس متحرک ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ایجنٹ پنڈی کی مسجد کے امام کے طور پر کام کر رہا ہے جب کہ طارق نامی ’مجنوں صاحب‘ بظاہر مسلمان درزی بنے ہوئے ہیں لیکن مسلسل اس ٹوہ میں ہیں کہ بم بنانے کی لوکیشن معلوم کر سکیں۔کہانی آگے بڑھتی ہے اور ساتھ ہی بونگیوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ایک تو انڈین فلم انڈسٹری کو آج تک ایسا ہی لگتا ہے کہ پاکستان میں ہر بندہ ایک دوسرے کو ’جناب‘ کہہ کر بلاتاہے حالانکہ کوئی انہیں بتائے کہ ہمارے ہاں ’جناب‘ کا لفظ عموماً طنز کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ آپ اپنے باس کو کسی دن ذرا یوں کہہ کر دکھائیں کہ’جناب آپ ہی کے حکم پر میں نے فائل مکمل کی ہے‘۔ اس کے بعد یقیناً آپ کو استعفیٰ دینے کی ِضرورت نہیں پڑے گی۔دوسری غلط فہمی پڑوسی ملک کو یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین صرف برقعے میں ہی گھر سے باہر نکلتی ہیں، ہر بندہ سر پر ٹوپی رکھتاہے اورآداب کے انداز میں سلام کرتاہے۔فلم میں را کا ایجنٹ پاکستان کے کسی آرمی آفیسر تک رسائی کی کوشش میں ہے ، ایک دن اسے موقع مل جاتاہے۔ جس دکان پر وہ کام کرتاہے وہاں آرمی کی یونیفارمز سلنے کے لئے آتی ہیں۔ یہ صاحب ایک بریگیڈیئر کی یونیفارم ان کے گھر پہنچانے کے لئے جاتے ہیں اور راستے میں شرٹ کے بٹن توڑ دیتے ہیں۔ بریگیڈیئرصاحب دکان والے پر غصہ ہوتے ہیں اور یوں ’مجنوں ‘ کو دوبارہ بٹن لگانے کے بہانے بریگیڈیئر صاحب سے ملنے کا موقع مل جاتاہے۔بونگی ملاحظہ کیجئے کہ قبلہ بریگیڈیئر صاحب کے گھر کے اندر ان کے سامنے بیٹھے شرٹ کو بٹن ٹانک رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عامیانہ انداز میں پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان کب ایٹم بم بنائے گا؟ جواب میں بریگیڈیئر صاحب بھی یہ راز افشا کر دیتے ہیں کہ یہ بم راولپنڈی کے مضافات میں بن رہا ہے اور بہت جلد لانچ ہوجائے گا۔’مجنوں‘ صاحب اس اہم ’کلیو‘ پر کام شروع کر دیتے ہیں اور مسجد کے ایجنٹ امام کو ساتھ ملا کر نقشے پرمطلوبہ مقام ڈھونڈنے لگتے ہیں کہ راولپنڈی کے مضافات میں کون کون سے علاقے آتے ہیں۔ایک دن انہیں پتا چلتا ہے کہ ایک اور درزی کی دکان پر آرمی کی کچھ اسپیشل یونیفارمز سلنے کے لئے آئی ہیں۔ مجنوں صاحب چونک اٹھتے ہیں۔ جس دن یونیفارمز کی ڈلیوری دینی ہوتی ہے ، یہ اور ایجنٹ امام صاحب آرمی کے یونیفارم میں ایک جیپ پر بیٹھ کر ٹرک روک لیتے ہیں اور افسرانہ انداز میں ٹرک کے آرمی ڈرائیور ز کو حکم دیتے ہیں’مال چیک کرایا جائے‘۔ یوں انہیں پتا چل جاتاہے کہ راولپنڈی کے ایک عام سے درزی سے سلوائی جانے والی یہ ا سپیشل جیکٹس ’یورینیم‘ سے بچائو کے لئے ہیں اورکہوٹہ بھجوائی جارہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی اہم جیکٹس آرمی کا جو ٹرک لے کر جارہا ہے، اس میں کوئی سینئر افسرموجود ہی نہیں، بس دو فوجی جوان بیٹھے ہیں اوروہ بھی اپنی کسی یونٹ کو جاکر یہ نہیں بتاتے کہ راستے میں دو افسروں نے ان کے ٹرک سے سامان نکال کر چیک کیا ہے۔دونوں ایجنٹ عام لوگوں کے حلیے میں کہوٹہ پہنچ جاتے ہیں۔وہاں انہیں پتا چلتا ہے کہ ایک خاص پہاڑی کی طرف جانے کی اجازت نہیں۔ ذہین ایجنٹس پلان بناتے ہیں اور ایک دن چھپتے چھپاتے پہاڑی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ طارق مجنوں جونہی پہاڑی کی اوٹ سے چھپ کر دیکھتاہے اسے پاکستان کا ’نیوکلیئر پلانٹ‘ نظر آجاتاہے۔یہ نیوکلیئر پلانٹ سبز گنبد والا ہے اورشاید انڈیا سے بھی آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن اسے دریافت کرنے کا سہرا دو ایجنٹس کے سر جاتاہے جو اپنی جان جوکھوںمیں ڈال کر یہاں پہنچے ہیں۔پہاڑی سے نیوکلیئر پلانٹ دیکھتے ہوئے اچانک ایک پاکستانی فوجی کی نظر طارق پر پڑ جاتی ہے۔ وہ اس کے قریب فائر کرتاہے۔ طارق گھبرا جاتاہے اور بہانا بناتا ہے کہ وہ غلطی سے یہاں آگیا تھا ۔ دلچسپ بونگی یہ ہے کہ فوجی پہاڑی پر جب فائر کرتاہے توقریب موجود سینکڑوں فوجیوں میں سے کسی کو گولی کی آواز نہیں آتی۔اور فوجی بھی اتنا بااختیار ہے کہ وہ اتنے حساس مقام پر دو اجنبیوں کی موجودگی پر کسی سینئر کو اطلاع نہیں کرتا بلکہ موقع پر ہی فیصلہ سنا کر دونوں کو جانے دیتاہے۔اب چونکہ یہ تو پتا چل چکا ہے کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے لیکن عالمی برادری کے لئے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت چاہئے۔ اس مقصد کے لئے اچانک ایجنٹ کو ایک اور طریقہ سوجھتا ہے۔ فلم کے مطابق ایٹمی پلانٹ کی حفاظت پر مامورسارے فوجی کہوٹہ میںبال کٹوانے آتے ہیںاور کہوٹہ میں نائی کی ایک ہی دکان ہے لہٰذا ایجنٹ صاحب فوجیوں کے کٹے ہوئے بال شاپر میں ڈال کر انڈیا بھیج دیتاہے۔وہاں ان بالوں کا ’فارنزک‘ کروایا جاتاہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان میں یورینیم کے ذرات موجود ہیں۔ یوں ٹھوس ثبوت کی بنا پر انڈیا پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرانےمیں کامیاب ہوجاتاہے۔فلم میںیہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ پاکستان میں لوگ پھانسی کو ’فانسی‘ اور زبردستی کو ’جبردستی‘ بولتے ہیں۔بندہ جوتی اتار لے اور ڈائریکٹر کا سر پلپلا کردے۔ را کے ایسے ایجنٹس کو ’رو‘ کی ریڑھی لگوا دینی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین