• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز برطانیہ سے پاکستان واپس آچکی ہیں ان کی بطور سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر تقرری پر جہاں پارٹی کے کارکنوں میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے وہاں سینئر عہدوں پر قابض بعض لیگی رہنمائوں کی جانب سے اس تقرری پر دبی دبی زبان میں تنقیدبھی کی گئی اور میڈیا میں اس تقرری پر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔مریم نوازکو سینئر نائب صدر بنائے جانے کے بعدمسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نےنہ صرف پارٹی کی سینئر نائب صدارت سے استعفیٰ دے دیا بلکہ’’ری امیجننگ پاکستان ‘‘ نام کا ایک نیا فورم قائم کیا ہے اور اس فورم سے پاکستان کی فلاح و بہبود کا پیغام پھیلانے کا اعلان کیا ہے ۔مجھے تو اس روز ہی کھٹکا ہوگیا تھا جب شاہد خاقان عباسی نے مصطفیٰ نواز کھو کھر ، مفتاح اسماعیل ، ہمایوں کرد اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ کوئٹہ سے پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا، مریم نواز کی واپسی پر پوری پارٹی قیادت ان کے استقبال کے لئے لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھی لیکن ان میں شاہد خاقان عباسی کی کمی محسوس کی گئی ۔البتہ انہوں نے کہا کہ ’’مسلم لیگ (ن) میں ہی رہوں گا، نہ ہی کہیں جا رہا ہوں اور کہیں گیا تو سیدھا گھر جائوں گا۔‘‘ شاہد خاقان عباسی کا شمار نواز شریف کے ان قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 35سال قبل مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا ،پرویز مشرف کی مارشل لائی حکومت میں نواز شریف کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں تو برداشت کیں لیکن نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے اور نہ ہی رہائی پر سرکاری مسلم لیگ (ق) کا حصہ بننے پر آمادگی کا اظہار کیا جس کی پاداش میں پرویز مشرف نے انہیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہ ہونے دیا اگرچہ راجہ محمد ظفر الحق پارٹی کے چیئرمین تھے لیکن نواز شریف نے ان کو راجہ محمد ظفر الحق پر ترجیح دی، راجہ محمد ظفر الحق نے پرویز مشرف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کو’’ ٹیک اوور‘‘ کرنے پر انعام کے طور عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم بننے کی پیش کش کو مسترد کر دیا، نواز شریف نے راجہ محمد ظفر الحق کو پارٹی کا چیئرمین تو بنا دیا لیکن پارلیمانی سیاست میں شاہد خاقان عباسی کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ۔شاہد خاقان عباسی اپنے آبائی حلقے مری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب نہ ہوسکے تو نواز شریف نے انہیں لاہور سے خالی ہونے والی نشست سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروا دیا حتیٰ کہ 2017ء میں ’’نا اہل ‘‘ قرار دئیے جانے پر نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کو بقیہ مدت کے لئے وزیر اعظم بنانے کی بجائے شاہد خاقان عباسی کو ترجیح دی۔ شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا جب پہلی بار ان کی پارٹی کی سینئرنائب صدارت سےمستعفی ہونے کی خبر آئی تو ان کے ترجمان حافظ عثمان نے ان کے مستعفی ہونے کی تردید کر دی۔ ان کی جانب سے کی گئی تردید کی ابھی بازگشت بھی نہ تھمی تھی کہ خاقان کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ ’’میں نے تین سال قبل نواز شریف پر واضح کر دیا تھا کہ اگر مریم نواز کو پارٹی میں سینئر عہدے پر لایا گیا تو ان کے لئے پارٹی میں رہنا ممکن نہ ہو گا‘‘ لیکن انہوں نے ایک بات بڑی معنی خیز کہی ہے، ’’میں آخری دم تک پارٹی کے ساتھ رہوں گا لیکن اگر پارٹی نے راہیں جدا کر لیں تو اپنے گھر جانا پسند کروں گا۔ ‘‘ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہےکہ انہوں نے3جنوری2023ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔میری شاہدخاقان عباسی سے اس وقت سے دوستی ہے جب انہوں نے اپنے والد محترم محمد خاقان عباسی کی سانحہ اوجڑی کیمپ میں شہادت کے بعد عملی سیاست میں حصہ لیا بقول ان کے وہ پیشہ کے لحاظ سے ہوا باز تھے لیکن حالات نے انہیں سیاست کی وادی میں دھکیل دیا۔مریم نواز کی آمد پر شاندار استقبال پر پی ٹی آئی کی قیادت نالاں ہے، شاہد خاقان عباسی کے طرزِعمل پر سب سے زیادہ خوشی پی ٹی آئی کو ہوئی ہے ۔ شاہد خاقان عباسی ایک صاف ستھرے کر دار کے مالک ہیں، ان کے خلاف آج تک کوئی کرپشن ثابت نہیں کرسکا ،صاف گو ہونے کی وجہ سے ان کو پارٹی کے اندر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کے درمیان گہری دوستی تھی، جلاوطنی کے دور میں دونوں پہروں انٹر نیٹ پر گپ شپ لگایا کرتے تھے۔ شاہد خان عباسی شہباز شریف کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کردار پربین السطور کئی بار تنقید کر چکے تو رانا تنویر حسین نے ٹیلی ویژن پر شہباز شریف کا بھرپور دفاع کیا جس کے باعث کچھ عرصہ تک شاہد خاقان عباسی اور رانا تنویر کے درمیان ناراضی رہی۔ اسی طرح شاہد خاقان اور خواجہ آصف کے درمیان کئی ماہ تک جنرل قمر باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے قانون کے مسودہ پر بول چال بند رہی، شاہد خاقان عباسی کا موقف تھا کہ انہیں جو مسودہ دکھایاگیا، اس سے مختلف مسودے پر پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی گئی جب کہ خواجہ آصف کا موقف تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے اس مسودے کی منظوری دی گئی جس کو نواز شریف کی تائید حاصل تھی ۔مختلف مواقع پر مریم نواز نائب صدر کی حیثیت سے پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتی رہی ہیں۔ سینئر نائب صدر شاہد خاقان ان کے ساتھ کھڑے ہونے پرکبھی معترض نہ ہوئے لیکن یہ اچانک کیا ہوا کہ انہوں نے پارٹی کی سینئر نائب صدارت سے استعفیٰ دے دیا؟ ان کا اگلا قدم اب’’باعزت‘‘ طور پر گھر جانا ہو سکتاہے۔ مریم نواز نے سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر کی حیثیت سے اپنی نئی سیاسی اننگز کا آغاز کیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے سیاسی ماحول میں جماعت اسلامی پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی جماعت ’’موروثی سیاست ‘‘ کے بدنما داغ سے بچی ہو ،اولاد کے سر پر ہی قیادت کا تاج سجانا گویا حق سمجھا جاتا ہے، اس سے اختلاف کرنے والوں کو ’’راندۂ درگاہ‘‘ کر دیا جاتا ہے اور پارٹی کارکن بھی ان کے سوا کسی کو اپنا لیڈر نہیں مانتا۔ سردار مہتاب احمد خان پارٹی کا قیمتی سرمایہ ہیں وہ بھی بوجوہ مین اسٹریم میں نہیں، مریم نواز ناراض رہنمائوں کو پارٹی میں سرگرم کردار اداکرنے کے لئے ان کے پاس جائیں۔

تازہ ترین