طلعت نفیس، کراچی
سلگتے چناربھی سرد موسم کی ٹھنڈک میں کوئی حدّت پیدا نہ کرسکے تھے۔ اُس سرد، برفیلی رات سب اپنے اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے کسی امداد نُما بھیک کے منتظر تھے۔ کل بارہ مولا پر ہونے والی بم باری سے ہول ناک تباہی ہوئی تھی۔ ’’بابا بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ آٹھ سالہ فلک نےاپنے بابا کا کندھا ہلاتے ہوئے کہا۔ اتنے میں فلک کی ماں اُٹھی اور ملبے سے کھانے کے لیے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگی، مگر ناکام رہی کہ لوہے اور پتھروں کے پہاڑ ہٹا کر کھانے پینے کی اشیا ڈھونڈنا ناممکن تھا۔ اتنے میں اس کی پڑوسن ہاتھ میں گڑیا لیے چلی آئی۔’’یہ دیکھ زرلش! میری پلّو کتنی پیاری لگ رہی ہے ناں…‘‘ اُس پگلی نے ہاتھ میں دَبی ٹوٹی ہوئی گڑیا لہراتے ہوئےکہا، تو زرلش نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے پڑوسن کو سینے سے لگالیا۔ پڑوسن کی بارہ سالہ بیٹی، پلوشہ کو ایک ہی ہفتہ قبل بھارتی فوجی اُٹھالے گئے تھے اور تب سے اُس کا کچھ پتا نہیں تھا۔
”رضا صاحب! آپ کے گھر راشن وغیرہ تو ہے ناں؟‘‘مقبوضہ کشمیر کے ہوم منسٹر کے ایک خاص آدمی نے رضا صاحب سے پوچھا۔ بھارتی سرکار بظاہر اپنے وفاداروں کا بہت خیال رکھتی ہے، لیکن کام نکلتے ہی اُنہیں ان کی اوقات یاد دلانے میں دیر نہیں لگاتی۔ ”سُنیں!آپ کتنی بھی ان کی غلامی اور اپنی قوم سے غداری کرلیں۔ جب یہ اپنی ذلالت پر اترتے ہیں، تو پھر کچھ نہیں دیکھتے۔“ صالحہ بیگم نے تلخی سے شوہر سے کہا۔ رضا صاحب ٹوپیوں کے تاجر اور بھارت کے وفادار تھے۔ شملہ کے ایک پوش علاقے میں بیوی اور دو بیٹیوں، ندا اور حرا کے ساتھ رہ رہے تھے۔ رضا صاحب بھارت کے اس قدر وفادار تھے کہ تحریکِ آزادی میں حصّہ لینے پر اپنے سگے بھائی تک سے تعلق منقطع کرلیا تھا۔
”کیا کریں، نہ چُھٹّی کرنے کو دل چاہ رہا ہے اور نہ ہی کالج جانے کو۔‘‘حرا نے ندا سے کہا۔ حالیہ بم باری میں اُن کی ایک عزیز از جان سہیلی شہید ہوگئی تھی، مگر باپ نے اُس کے جنازے تک میں شرکت کی اجازت نہ دی، اس لیےدونوں بہت اداس تھیں۔ ”حالات بہت خراب ہیں، میرا خیال ہے کہ آج تم لوگ کالج مت جاؤ۔‘‘ امّی نے کہا۔ ”ہم تو اُن کے وفادار کی بیٹیاں ہیں ناں۔ ہمیں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔“ ندا نے خاصے تلخ لہجے میں کہااوروہ دونوں تیار ہو کر کالج چلی گئیں۔
اچانک کالج کا چوکیدار تیزی سے اندر داخل ہوا اور پرنسپل کے آفس میں چلا گیا۔ ”سر…سر!! باہر بھارتی فوجی ٹرک اکٹھے ہو رہے ہیں، مجھے اُن لوگوں کی نیّت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔‘‘ اُس نے پُھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بتایا۔ ’’ہوم منسٹر نے مجھے خود یقین دہانی کروائی تھی کہ ہمارے کالج میں کبھی کوئی چھاپہ نہیں پڑے گا۔“ پرنسپل صاحب نے کہا۔اتنی دیر میں فوجی بُوٹوں کی آواز نہایت قریب آگئی۔ گوکہ پرنسپل صاحب بھارت سرکار کے کارندوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتےرہے، مگر اُن ظالموں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ دو فوجیوں نےتو پرنسپل کو گھسیٹتے ہوئے ایک کونے میں لےجا کر بٹھا دیا۔
پھر کلاس رومز میں داخل ہوئے اور وہاں موجود طالبات کو للچائی نظروں سے دیکھنےلگے۔ دوسری جانب تمام لڑکوں کو ہاتھ اُٹھا کر دیوار کی جانب منہ کرکے کھڑا کردیاگیا۔ ندا اپنی ہتھیلیوں سے چہرہ چُھپائے ہوئےتھی کہ ایک فوجی نے زبردستی اس کےچہرے سے اس کے ہاتھ ہٹا دیئے۔ ”حسینہ! تم اِس چاند چہرےکو اس طرح چُھپا نہیں سکتیں“۔ ندا اُن کے ارادے بھانپ کر زور زور سے چلاّنے لگی۔ اتنے میں اُس کے ایک کلاس فیلو، ارقم نے برابر کھڑے سمیر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیااور وہ دونوں تیزی سے پلٹ کر اُس فوجی پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے اس اچانک حملےپر تمام فوجی الرٹ ہوگئے اور پھردونوں کو بُوٹوں اور بندوقوں کے بٹ مار مار کر شدید زخمی کردیا۔ اِس کے باوجود اُن کی وحشت ختم نہ ہوئی اور دونوں کو خون رِستے زخموں کے ساتھ کھینچتے ہوئے باہر لےگئے۔
اِسی افراتفری میں ندا اور حرا کو وہاں سے فرار کا موقع مل گیا۔ وہ روتی دھوتی، حواس باختہ سی گھر پہنچیں، تو دونوں کی حالت غیر تھی۔ رضا صاحب بیٹیوں کی یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرا گئے۔ ’’کیا ہوا تم دونوں کو، اس قدر حواس باختہ کیوں ہو رہی ہو…؟؟‘‘رضا صاحب نے پوچھا۔ ’’بابا! ہم آپ سے کہتے تھے ناں کہ بھارت سرکار کا ساتھ نہ دیں، لیکن آپ نے ہماری ایک نہ سُنی۔ ہمیشہ یہی کہا کہ میری وفاداری کے بدلےتم لوگوں کی عزّتیں محفوظ رہیں گی،لیکن آج…آج آپ کی چہیتی بھارت سرکار کے غنڈے ہمارے کالج تک میں دندناتے ہوئے آگئے، پرنسپل صاحب سمیت کئی لڑکوں کو مارا پیٹا اور ہماری کچھ سہیلیوں کو اُٹھا کر لے گئے۔
اگر آج ہمارےدوکلاس فیلوزہماری عزّتیں بچانے کے لیے آگے نہ بڑھتے، تو … تو جانےہم پہ کیا قیامت ٹوٹ پڑتی۔‘‘یہ کہتے ہوئے ندا زارو قطار رونے لگی۔ رضا صاحب تو جیسے پتّھر کی مُورت بن کے رہ گئے۔ کافی دیر تک تو وہ کچھ کہنے سُننے کے قابل ہی نہ تھے، پھر اچانک اُٹھے اور ہوم منسٹری کو فون مِلا کر اس اُمید پر سارا واقعہ کہہ سُنایا کہ شاید اُن کی سابقہ وفاداریوں کاکوئی بھرم رکھ لیاجائے۔ مگر دوسری طرف صرف خاموشی تھی۔
اُس روز رضا صاحب کے گھر میں بھی ایِک عجیب سا سنّاٹا، مکمل خاموشی ہی طاری رہی،جب کہ رضا صاحب بھی منسٹری سے بات کر کے جو گھر سے نکلے، تو اب تک نہیں لوٹے تھے۔ رات کے دس بج رہے تھے اور اُن کا کچھ اتاپتا نہیں تھا۔ امّی نے کئی مرتبہ ان کے نمبرپر کال ملائی،مگرانہوں نےریسیونہ کی۔ تینوں ماں بیٹیاں شدید پریشانی کے عالم میں ٹہل رہی تھیں، جب کہ امّی نےحفاظتی اقدام کےپیشِ نظر گھر کےتمام دروازوں کی کُنڈیاں بھی چڑھا دیں کہ اتنے میں کسی کے زور زور سےدروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ وہ تینوں سخت خوف زدہ تھیں، دروازے تک جانےکی ہمّت ہی نہ کرپارہی تھیں۔
دوچار دستکوں کے بعد جب کسی نے دروازہ باقاعدہ پیٹنا شروع کر دیا، تو امّی ہی نے ہمّت کر کے پوچھا ’’کون ہے…؟‘‘ تو جواباً رضا صاحب کی بہت کم زور، ٹُوٹی ہوئی سی آواز سُنائی دی۔ امّی نے تیزی سے لپک کر دروازہ کھولا تو رضاصاحب اکیلے نہیں، اپنے چھوٹے بھائی اور اُن کی پوری فیملی کے ساتھ کھڑے تھے۔ ’’میری بچیاں کہاں ہیں؟‘‘رضا صاحب نے اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ندا اور حرا کاپوچھا اور پھر آگے بڑھ کے اپنی ڈری سہمی سی بیٹیوں کو بھینچ کر گلے لگالیا۔ ’’مجھے معاف کردو، میری بچیو!تمہارا باپ بالکل غلط تھا، غیروں کی چاکری کرکےسمجھ رہا تھا کہ اِس طرح اُس کا گھر محفوظ رہے گا، لیکن آج کے اِس دردناک واقعے نے مجھےجھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔
سچ ہے، بھڑکتی ہوئی آگ کسی کو نہیں بخشتی، وہ پھر اپنا پرایا کچھ نہیں دیکھتی۔ جب میری پوری دھرتی میں آگ لگی ہے، تو پھر بھلا میرا گھر اُس کی لپیٹ میں کیوں نہ آتا۔بس، مَیں نے آج سے کشمیری مجاہدین کےساتھ جنگِ آزادی میں حصّہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب مَیں بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنے گھر کی اس آگ کو بُجھانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ دیکھو، مَیں تمہارے چاچو اور ان کی فیملی کو بھی لے آیا ہوں، اب یہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہیں گے اور آج سے لوگ مجھے بھارتی کارندہ نہیں، مجاہدِ کشمیر کے نام سے جانیں گے۔ اب سے ہماری زندگی بھی آزادیِ کشمیر کی جدّوجہد میں گزرے گی۔‘‘ یہ کہہ کر رضا صاحب نے اپنے اور اپنی بچیوں کے آنسو پونچھے اور بھائی کو گلے لگالیا۔