• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل پرویز مشرف کو جن وجوہ کی بنا پر مطعون کیا جاتاہے، کارگل ان میں سب سے نمایاں ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی پوری زندگی چیخ چیخ کر گواہی دیتی ہے کہ وہ ایک ہزار برس بھی جرات اکھٹی کرتے تو ایسے ایڈونچر کا خواب نہ دیکھ سکتے۔ میاں صاحب کو ہمیشہ ایک عافیت کدہ درکار ہوتاہے۔ یہ عافیت اگر یقینی نہ ہو تو وہ بیرونِ ملک زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔کارگل جیسی مہم جوئی صرف اس صورت میں ہونی چاہئے تھی، جب پاکستان ہر قیمت پر کشمیر حاصل کرنے کیلئے یکسو ہوتا۔ اس کیلئے خواہ اسے بھارت سے مکمل جنگ میں کودنا پڑتا یا عالمی معاشی پابندیوں کا سامنا۔ افسوس کہ ایسا کوئی منصوبہ کہیں موجود نہ تھا۔ پاکستان عالمی ردّعمل کا سامنا کر سکا اور نہ مکمل جنگ کی کوئی تیاری یا خواہش یہاں موجود تھی۔ الٹاوقتی عسکری کامیابی کے بعد اسے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں محمد نواز شریف کے برعکس مشرف کی شخصیت میں مہم جوئی کا عنصر خاصی مقدار میں پایا جاتا تھا۔پاکستان کی سیاسی قوتیں آپس میں متصادم رہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے حضور ایک دوسرے کے خلاف وعدہ معاف گواہ۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی باہمی کشمکش نے فوجی مداخلت کا راستہ کھولے رکھا۔ ایک بھی جماعت ایسی نہ تھی، جس نے برسرِ اقتدار آکر عسکری حکمرانوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ جنرل مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں جو بڑے فیصلے کئے،بنیادی طور پر وہ درست تھے۔ قبائلی علاقے میں فوج بھجوانے کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کابھی۔ امریکہ اور اس کے حواری اس جنگ کے جتنے ذمے دار تھے، لگ بھگ اتنے ہی ملا عمر بھی تھے۔ بدلتے عالمی حالات کے باوجود انہوں نے القاعدہ کو افغان سرزمین سے پوری دنیا پر دہشت گرد حملوں کیلئے ایک ٹریننگ کیمپ مہیا کیا۔ نو عمر لڑکوں کے ذریعے بڑے شہروں میں خودکش دھماکے کر کے ان کا کنٹرول حاصل کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا، جو سراسر خلافِ شریعت تھا۔ملا عمر اور کچھ نہ بھی کرتے،بن لادن سےافغانستان چھوڑنے کی درخواست ہی کر دیتے تو یہ سب نہ ہوتا۔ افغان طالبان نے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جو شکست دی، اس میں ایک ایک مغربی فوجی کو قتل کرنے کیلئے درجنوں بے گناہ افغانیوں کو خودکش حملوں میں قتل کیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے میں بھی عسکریت پسندی پھیل چکی تھی۔ قبائلی سردار قتل کئے جا رہے تھے۔ حکومتی رٹ ختم ہو چکی تھی۔ جنرل مشرف کی جگہ کوئی بھی فوجی جنرل اور حتیٰ کہ سیاسی حکمراں بھی تخت نشین ہوتا تو یہی فیصلہ ہونا تھا۔ افغانستان میں پے درپے دو عالمی جنگوں کے پسِ منظر میں پاکستان کے پاس ان جنگوں سے لا تعلق رہنےکاکوئی آپشن موجود ہی نہ تھا۔ آج بھی اگر آپ دس لوگوں سے مشرف دور کے بارے میں سوال کریں تو سات افراد اسے ایک خوشحال دور قرار دیتے ہیں۔ پچھلے دو عشروں کا واحد خوشحال دور۔ یہ ایک بچگانہ بات ہے کہ امریکہ سے ڈالر آرہے تھے۔ اس پوری جنگ میں کل امریکی امداد پچیس ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی، جب کہ پاکستان کا معاشی نقصان 120ارب ڈالر۔یہ بات کتنی شرمناک ہے کہ ایک جنرل آکر معیشت درست کر دے۔ بعد ازاں جب سیاسی قوتوں کو موقع ملے تو ملکی قرضے پچاس ہزار ارب روپے اور ڈالر 275کا ہو جائے۔ مشرف دور کے اختتام پر ساٹھ برسوں کے مجموعی قرضے چھ ہزار ارب روپے اور ڈالر ساٹھ کا تھا۔ ہے کوئی مائی کا لال سیاسی حکمراں جو اسے 120روپے پر بھی لے جا کر دکھائے۔ سب جانتے ہیں کہ جنرل مشرف ایک لبرل شخص تھا۔اس کے ایک قریبی ساتھی نے علیحدہ ہوجانے کے بعد اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ اس نے ایک مرتبہ ایک اسلامی نظریے کا مذاق اڑایا تھا۔ اس بات کی مگر کوئی گواہی موجود نہیں اور جنرل مشرف نے کھلے عام کبھی کسی مذہبی فکر کا تمسخر نہیں اڑایا۔اس لئے اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ ہمارے دائیں بازو کے جو انتہا پسنداپنے جلسوں میں چیخ چیخ کر امریکہ اور بھارت کو دھمکیاں دیتے ہیں، عالمی سطح پر وہ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا بوجھ بن چکے۔ پاکستان پر ان کی وجہ سے بے حد دباؤ رہتاہے۔ اس کے برعکس جنرل مشرف نے ان گنت دفعہ عالمی سطح پر ہی نہیں، خود بھارت کے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر پاکستان کا مقدمہ ایسا پیش کیا کہ انڈین میڈیا کی بولتی بند ہو گئی۔ مشرف کے دور میں انڈیا نے کئی دفعہ سرحد پر تیز رفتار فوجی پیش قدمی سے پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی۔ ہمیشہ پاکستانی فوج پہلے سے اس کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھی۔آخر کار بھارتی فوج کو واپس جانا پڑا۔ جنرل مشرف گزشتہ چند برسوں سے بیمار تھے اور وہیل چیئر پر دکھائی دیتے۔ کچھ لوگ ان کی بیماری اور موت سے عبرت حاصل کرنے کے آرزومند ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں، جن کے آباؤ اجداد ہزاروں برس سے نہ صرف مسلسل زندہ ہیں بلکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی قوت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایماندار ی کی بات یہ ہے کہ سب بوڑھوں کا حال یہی ہوتاہے۔ میرے خاندان کے کچھ بزرگوں نے ساری عمر تہجد پڑھی، کئی کئی نسلوں کو قرآن پڑھایا۔ آخری برسوں میں وہ بستر پر تھے اور وہیں رفع حاجت کیا کرتے۔ بوڑھوں ہی کی بات نہیں، جوان شخص بھی بیمار ہو تو یہی حال ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین