• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کے انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں۔ لیکن یہاں انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں کی تیاری کا وہ ہی انداز ہے۔ لگتا ہے کہ پہلے قرا نکلتی پھر اس کے حساب سے سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملی وضع کرتی ہیں۔

ذرا اس بات کو سمجھنے کے لئے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ 1947 سے 1957 تک اس وقت کی مسلم لیگ کی حکومت رہی یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی وزیراعظم نے مدت مکمل نہ کی۔ تین گورنر جنرلز اور ایک صدر رہے۔ پھر 1958 میں مارشل لاء لگ جاتا ہے اور پھر 1971 کی جنگ کے بعد اس کا اختتام ہوجاتا ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے جو اپنی مدت ایک ہی وزیر اعظم سے پوری کرکے انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے اور اس کے نتائج کے خلاف ملک گیر تحریک شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں 73 کا آئین معطل کرکے مارشل لاء نافذ ہوجاتا ہے 1977 میں جو 1988 تک چلتا ہے۔ اس دوران 1985 میں غیر سیاسی انتخابات ہوتے ہیں جس میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والوں کی حکومت قائم ہوتی ہے۔ جو ایک سانحہ کی وجہ سے 58 2B کے صدارتی اختیار کی بدولت ختم کردی جاتی ہے۔ 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اقتدار کی مسند پر بیٹھتی ہے۔ جو تقریبا دو سال بعد 58 2B کی نظر ہوجاتی ہے۔ 1990میں مسلم لیگ کی حکومت بنتی ہے جو 1993کے آخر میں 58 2B کا شکار ہوتی پھر 1994میں پھر پیپلزپارٹی منتخب ہوکر آتی ہے اور 1996 کے آخر میں پھر 58 2B کی چھری چلتی ہے 1997کے شروع میں مسلم لیگ پھر منتخب ہوتی ہے اور 1999 میں مارشل لاء آجاتا ہے جو 2007تک چلتا ہے۔ 2008 میں پیپلزپارٹی پھر برسراقتدار ہوتی ہے لیکن کئی وزراء اعظم تبدیل ہوتے ہیں، پھر بھی پانچ سال مدت پوری کرکے رخصت ہوتی ہے۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار ملتا ہے اب بھی ایک وزیر اعظم نہیں رہتا۔ دو وزیر اعظم بنتے ہیں۔ پانچ سال کی مدت پوری کی جاتی ہے اور جب کہ تحریک انصاف کافی مضبوط سیاسی جماعت بن چکی تھی۔ 2018 میں بالآخر تحریک انصاف اقتدار سنبھالتی ہے مگر مدت پوری نہیں کر پاتی۔ باری کے طور پر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں شریک اقتدار ہوتے ہیں۔ لیکن اصل اقتدار مسلم لیگ کا ہی سمجھا جا رہا ہے۔

یہ ساری تاریخی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ذرا غور کریں کہ پاکستان میں آزادانہ انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن باریاں لگا کر۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی بھی لگا تار حکومت نہ بنا سکی۔ ایک انتخاب ایک ہی سیاسی جماعت کی حکومت اس کے بعد اگلی سیاسی جماعت کی حکومت۔ لیکن دو انتخابات ایک ہی سیاسی جماعت کی متواتر حکومت، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آخر کیا وجہ ہے؟ کیا ایسا کہیں نہیں ہوتا؟ جب ہم اور ممالک میں دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا کہ ایک ہی سیاسی جماعت متواتر انتخابات جیت کر حکومت بناتی ہے۔ امریکہ میں تو ایک ہی سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ ایک ہی شخص مسلسل دو مدت مکمل کرسکتا ہے۔ پھر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی معاہدے کے تحت اور باریاں لگوا کر اقتدار میں آتی ہیں۔ تاکہ سب خوش رہیں۔ لیکن وفاقی حکومت صرف ان دو بڑی جماعتوں کے درمیان ہی شٹل کاک بنی ہوئی ہے۔

اگر آپ حالات کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے پیچھے لگی ہوئی ہیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں لگی ہوئی ہیں۔ خوب کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ حکومت میں شامل ہونے کے باوجود اس کو غلط حکومتی پالیسیوں کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری وزارت خارجہ کی ذمہ دار بن کر غیر ملکی دوروں پہ رہ کر آداب سفارت سیکھ رہے ہیں۔ تاکہ وزارت عظمی سنبھالتے ہی آوروں کی طرح چھوٹی چھوٹی غلطیاں سرزد نہ ہوجائیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ ساری صورتحال کو دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ کیوں کہ باری کی ترتیب کے حساب سے اگلی باری اسی کی ہے۔ اسی لئے الزام تراشیوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پیپلزپارٹی کا قائد کسی اور کے خلاف کوئی بات کررہا ہے۔

لیکن یہ صرف ایک تجزیہ ہے ہوگا کیا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ انتظار کیجئے لیکن آنکھ، کان اور عقل کا استعمال کرتے ہوئے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین