• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کی صورتحال پر تین امور پر پیشرفت پاکستانی حکمت عملی کو بہت واضح طور پر بیان کر رہی ہے ۔ ماسکو میں روس کی زیرِ قیادت افغانستان کے امور پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا،قریبی ممالک کی قیادت کو مدعو کیا گیا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اس کانفرنس میں پاکستان بھی شامل ہو گا مگر پاکستان نے شمولیت سے انکار کر دیا اور اس کیلئےجواز یہ پیش کیا کہ پاکستان اس سے بہتر انداز میں افغانستان میں سلامتی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے میں مشغول ہے۔ پاکستان کے گزشتہ کچھ عرصے سے روس سے تعلقات میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور ان حالات میں یہ پاکستان کا انتہائی غیر معمولی اقدام ہےلیکن پاکستان میں بجا طور پر اس امر کو درست نہیں سمجھا جا رہا کہ افغانستان کے معاملات میں بھارت کا کوئی کردار ہو۔ بحث برائے بحث کا رویہ اختیارکر لیا جائے تو اور بات ہے ورنہ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ جب بھارت کو گزشتہ اشرف غنی اور كکرزئی حکومتوں کے دوران موقع ميسر آیا تو اس نے پاکستان کیلئے امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے سے لیکرافغانستان اور پاکستان کے مابین دریاؤں کے مسائل پر تصادم پیدا کرنے کی کوشش کی، تعلقات میں زہر گھولا جاتا رہا ۔ اس ماسکو کانفرنس میں بھارت کو بھی مدعو کیا گیا تھا، ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول آ رہے تھا اس کے بعد پاکستان کے لیے یہ ایک مناسب اقدام تھا کہ وہ اس کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ کرے تاکہ واضح طور پر یہ پیغام دیا جاسکے کہ ہمیں افغانستان میں بھارتی کردار قابل قبول نہیں ہے۔ افغان طالبان کو تو ویسے ہی اس کانفرنس میں شرکت کرنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی اور پاکستان کی غیر موجودگی کے بعد اس کانفرنس کی حیثیت کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ پھر یہ امر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ امریکی ،روس کی زیر قیادت کسی ایسے اقدام کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں اور وہ اس میں پاکستان کی نمائندگی کو کیسے دیکھتا ہے؟ ہمیں اس معاملے کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کس ملک کے ساتھ معاملات کو کس حد تک بڑھانے میں ہمارا مفاد ہے ، امریکہ ہو یا روس سب برابر ہیں ۔ پاکستان کی دگرگوں معاشی صورتحال ویسے بھی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم امریکی حمایت کو اپنے لئے موجودہ سطح سے بھی کم کردیں ۔ اس وقت پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہےہیں اور ان مذاکرات کی کامیابی کے لئے امریکی حمایت ہمیں درکار ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم روس سے پیٹرول لینا چاہتے ہیں جو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوگا۔ سردست امریکہ کو اس پر اعتراض بھی نہیں، ہم اگرروس سے اس کانفرنس کے ذریعے معاملات کو مزیدآگے بڑھاتے تو امریکہ کی جانب سے کسی سخت اقدام کا امکان بڑھ جاتا جو ہماری معاشی صورتحال کیلئے کسی طور بھی قابل برداشت نہ ہوتا ۔ ویسے بھی موجودہ حالات کے باوجود پاکستان اتنی صلاحیت اوراہمیت رکھتا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکے ۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کی تازہ لہر نے اس کردار کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے جب کے پی میں پولیس جوانوں کی شہادتیں دوبارہ سے شروع ہوئی تھیں تو اس وقت ہی تحریر کر دیاتھا کہ اس باب میں سخت حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے پھر سانحہ پشاور پولیس لائنز ہو گیا ۔ پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد افغان طالبان حکام سے ان مسائل پر گفتگو کرنے کیلئے کابل جارہا ہے کیونکہ افغان طالبان نے پاکستان کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں سہولت کاری کا بیان دیا ہے جو ان کے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر وہاں کے سیاسی تجزیہ کاروں کی گفتگو بھی واضح کر رہی ہے کہ وہاں پاکستان کیلئے سب اچھا نہیں ہے ۔ ان تمام آوازوں کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینا درکار ہے اور یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ان معاملات میں بھارت کا کوئی کردار نہ ہو ۔ اس وقت پاکستان، ایران اور افغانستان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سلامتی کے بہت سارے امور پر کوشاں ہیں ۔ ایسی کوششوں کی بھنک اس دن بھی میرے کانوں میں پڑی جب لاہور میں ایرانی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب میں ایرانی سفارتکار بہت پر امید نظر آئے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری آ رہی ہے اور دونوں ممالک کے حکام ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کیا جائے۔ ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی دوبارہ شروع ہوئی تو سب کے ہاتھ جليں گے ۔

تازہ ترین