• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

عجب ملک کی غضب کہانی یہ ہے کہ ہم گنے کی پیداوار میں دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہیں مگر ہمیں سستی چینی دستیاب نہیں۔ گندم پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہمارا آٹھواں نمبر ہے لیکن عوام سستے آٹے اور روٹی کی تلاش میں قطار در قطار دربدرہو رہے ہیں۔ ہم چاول کی بہترین اقسام اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا بھر میں دسویں نمبر پر ہیں لیکن عام آدمی مٹھی بھر چاول خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ہم ایک ایسے ملک میں زندہ ہیں جس کا کپاس کی پیداوار میں کبھی چوتھا نمبر تھا مگر آج عام شہری کو تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا میسر نہیں۔ ہم تھر میں بلیک گولڈ (کوئلے) کے بڑے ذخائر میں سے ایک کے مالک ہیں لیکن ہمیں سستی بجلی دستیاب نہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے کارخانے ، اسٹیل ملیں اور بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ چلانے کیلئے اربوں ڈالر کا کوئلہ بیرون ملک سے درآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ برباد کرکے بھی مطمئن ہیں لیکن اپنے کوئلے کے ذخائر استعمال کرنے کو تیار نہیں۔ ہم اس بدقسمت ملک میں سانسیں لے رہے ہیں جہاں ریکوڈک کی شکل میں سونے کی کانیں ہیں۔ ہمارے پہاڑوں میں قیمتی پتھروں کے خزانے ہیں لیکن ہمارے پاس ان خزانوں کو تلاش اور ملکی ترقی میں استعمال کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ افسوس ہم ان قیمتی معدنی وسائل کو اپنے لوگوں کی ترقی و خوش حالی کیلئے استعمال نہیں کرسکے۔ ہم اس خوش قسمت ملک کے بدقسمت لوگ ہیں جسے اللّٰہ نے چار خوبصورت موسموں سے نوازا۔ ہم خوش ذائقہ، خوشبو دار پھلوں، سبزیوں، پھولوں اور خشک میوہ جات کی پیداوار میں دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں لیکن اس سے ڈالر کمانے کو تیار نہیں۔ ہم خوبصورت سرسبز وادیوں، بلندو بالا پہاڑوں، دنیا کی بہترین سیر گاہوں کے مالک ہیں،غیر ملکی سیاحوں کو محفوظ ماحول، بہترین سہولتیں فراہم کر کے اور ان کی اعلیٰ ترین مہمان نوازی کے عوض کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان لاسکتے ہیں لیکن ہم پُر امن اور خوشگوار ماحول پیدا کرسکے نہ ہی اس حوالے سے ہماری کوئی پختہ سوچ سامنے آسکی۔ بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانوں میں سے ایک داستان موٹرویز، ہائی ویز کے ٹال ٹیکس کی لوٹ کھسوٹ کی بھی ہے۔ صرف لاہور اسلام آباد ایم ٹو موٹروے سے اکٹھے ہونے والے ٹیکس کے اعدادو شمار کا تجزیہ کریں تو لوٹ کھسوٹ کی ہوش ربا کہانی سامنے آئے گی۔ آپ صرف اسلام آباد سے لاہور تک سفر کریں تو اختتامی ٹول پلازہ پر ایک درجن سے زائد بوتھ نظر آئیں گے۔ ہر بوتھ پر ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک منٹ میں کم از کم چھ کاریں گزرتی ہیں یعنی ایک گھنٹے میں تین سو ساٹھ کاریں ، بارہ عدد بوتھوں سے چار ہزار تین سو بیس اور چوبیس گھنٹے میں ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اسی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور تک ایک کارکا ٹول ٹیکس ایک ہزار روپے(ہیوی وہیکل کا ٹول ٹیکس چار سے پانچ ہزار)، یوں صرف کاروں کا مجموعی ٹیکس جمع کریں تو چوبیس گھنٹے میں یک طرفہ ٹول ٹیکس ساڑھے دس کروڑروپے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ دو طرفہ ٹول ٹیکس تقریباً اکیس کروڑ روپے۔ اسی طرح آپ پورے ملک کی موٹرویز، ہائی ویز اور شاہراہوں کے ٹول پلازوں کی تعداد، گاڑیوں کی آمدورفت کے اعداد و شمار جمع کرلیں تو عقل دنگ رہ جائے گی کہ حکومت سونے کی کان پر بیٹھی اربوں روپے روزانہ ٹیکس وصول کررہی ہے۔ بڑی تباہی کی چھوٹی سی ایک داستان یہ بھی پڑھ لیجئے کہ موٹروے ایم فائیو اسیکنڈل میں ملوث سندھ کے ایک سابق صوبائی وزیر کے پرسنل اسسٹنٹ عاشق کلیری کے گھر سے 44 کروڑ روپے کی کیش ریکوری کی گئی ہے،اس کے علاوہ کروڑوں روپے مالیت کی پانچ قیمتی گاڑیاں بھی برآمد ہوئیں۔ آپ ان لٹیروں کی وارداتیں دیکھیں، ان کی شکلیں دیکھیں اور ملک بھر کی موٹرویز ، ہائی ویز اور بڑی شاہراہوں کی حالت زار دیکھیں کہ ہم کن لوگوں کے ہاتھوں دن رات ٹھگے جارہے ہیں۔ کوئی چھوٹی بڑی عدالت، کوئی صادق و امین حکمران، کوئی عوامی نمائندہ اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں کوئی ہمارے پلے بھی ڈالے کہ یہ اربوں ، کھربوں روپے کے ٹول ٹیکس اور وصولیاں کس کے خزانے بھر رہی ہیں۔مافیا بین الاقوامی مارکیٹ سے سستا پٹرول حاصل کرکے ہمارے ہی وسائل سے سستی بجلی پیدا کرتا ہے اور ہمیں ہی رنگ برنگے ٹیکسوں کی شکل میں مہنگے داموں فروخت کردیتا ہے۔ ہمیں ڈبونے والے خوش حال اور ان کے ہاتھوں لٹنے والے کنگال ہو رہے ہیں۔ آپ جس گاڑی میں سفر کرتے ہیں، اس میں ایک لیٹر پٹرول کی مد میںتقریباً ساٹھ روپے سے زائد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ روزانہ لاکھوں گیلن پٹرول ، ڈیزل، مٹی کے تیل کی مد میں اربوں روپے ٹیکس وصولی کے باوجود قومی خزانہ خالی ہے۔فرض کریں آپ بجلی کا بل 10ہزار روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں، بجلی کی اصل پیداواری لاگت نکال کر بقایا 7 ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی حالت گیس کے بلوں کی بھی ہے۔ آپ ادویات خریدتے ہیں تو سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں، ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں تو ٹیکس کاٹا جاتا ہے۔ زمین خریدتے یا فروخت کرتے ہیں ،گھر کا نقشہ بنواتے ہیں اور گھر بنانے کے بعد سالانہ پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، بچوں کی تعلیم، کتابوں، کاپی پنسل تک کی خریداری پر سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لئے کھڑے ہیں۔عجب ملک کی غضب کہانی کہاں سے شروع کریں کہاں ختم کریں۔(جاری ہے)

تازہ ترین