کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق وزیراعظم اور رہنما پاکستان مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کوعمران خان کو گرفتار نہیں کرنا چاہئے ،عمران حکومت جس نہج پر پاکستان کو لے گئی ہے اس کا اندازہ تو مجھے بھی نہیں تھا، منی بجٹ ایک مشکل فیصلہ تھا جس سے عوام پر بوجھ پڑا ہے اور اندازہ ہے کہ اس کی بھاری سیاسی قیمت ہم نے ادا کی ہے اور کرنی بھی ہے۔ن لیگ میں اختلافات کی وجہ جنرل باجوہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا اس سے کوئی تعلق ہے ۔ 2022ء میں جنرل باجوہ سے صرف دو مرتبہ ملاقات ہوئی جس کا احوال وہ او رمیں جانتے ہیں تاہم یہ درست ہے کہ 2022ء میں جنرل باجوہ دوبارہ ایکسٹینشن لینے کی کوشش کررہے تھے ۔ عمران خان توباجوہ صاحب کی تخلیق ہیں ۔ نواز شریف کبھی بھی جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کی حامی نہیں رہے وہ کھل کر مخالفت کرتے تھے ۔ جب میں وزیراعظم تھا تو میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ جنرل باجوہ سپر کنگ یا سپر باس ہیں ۔ وہ جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر کے سوالات کا جواب دے رہے تھے ۔پروگرام میں ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جان بوجھ کر ان کے کیسز میں حفاظتی ضمانت ملی ہوئی ہے ۔موجودہ کیس میں انہوں نے اکتوبر میں حفاظتی ضمانت لی تھی اور کوئی ویسے بھی ان کو زبردست گرفتار نہیں کررہا ہے عین ممکن ہے کہ ان کی حفاظتی ضمانت منظور ہوجائے پر یہ پیش تو ہوں ۔نہ ہی ان کا کوئی میڈیکل بورڈ بنا ہے نہ ہی کسی ڈاکٹر نے یہ تصدیق کی ہے کہ وہ سفر کے قابل نہیں ہیں۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہناتھا کہ جب سے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں گیا ہے اس وقت سے پاکستان کے پاس آپشن ختم ہوچکی ہے ،آئی ایم ایف کا یہ والا سلسلہ عمران خان کا شروع کردہ ہے اور یہ اسی کا تسلسل ہے بس فرق یہ ہے کہ ہر تین ماہ بعد ریویوز ہوتے ہیں جن میں دیکھا جاتا ہے کہ جو ہدف دیا گیا تھا وہ پورا ہوا ہے کہ نہیں اگر ہدف پورا نہ ہوا ہو تو پھر اضافی ٹیکس لگانے پڑتے ہیں اور قانون کے تحت ہی آپ کو اسمبلی میں آکر ایک منی بجٹ پاس کروانا پڑتا ہے ۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا حکومت کی کامیابی ہی ریاست کی کامیابی ہے تاہم یہ ہمار ی بدقسمتی ہے کہ آج ہم اس نہج پر جاپہنچے ہیں کہ ہماری آمدنی سے سود تک نہیں اتر پارہا ہے ، ڈالر کی بھی کمی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کا منہ دیکھنا پڑرہا ہے تاکہ کچھ ڈسپلن آجائے اور قرض دینے والے ممالک مطمئن ہوجائیں کہ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا عمران حکومت کو میں نے کافی کلوز سے فالو کیا ہے لیکن عمران حکومت جس نہج پر پاکستان کو لے گئی ہے اس کا اندازہ تو مجھے بھی نہیں تھا اور نہ ہی مفتاح اسماعیل کو اندازہ تھا ۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ کوئی ملک خاص کر دوست ممالک عمران حکومت سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے ، پوری دنیا کا اعتماد ہم نے کھودیا تھا ، عمران خان کی اس حرکت نے تو تباہی پھیر دی کہ انہوں نے پیٹرول کو قیمت خرید سے بھی کم پر بیچنا شروع کردیا اور 400 ارب کا ہمیں امپیکٹ دیکھنے کو ملا اور تمام مالیاتی اداروں نے ہم پر اعتماد ہی ختم کردیا ۔سابق وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ منی بجٹ ایک مشکل فیصلہ تھا جس سے عوام پر بوجھ پڑا ہے اور اندازہ ہے کہ اس کی بھاری سیاسی قیمت ہم نے ادا کی ہے اور کرنی بھی ہے لیکن ہماری نظریں ملک کے مفاد پر ہیں اور ہماری ترجیح بھی ملکی مفاد ہے ۔یہ تاثر بھی درست نہیں ہے کہ حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے اس تاثر کو درست کیا جانا چاہئے اور حکومت اس تاثر کو ختم کرے کہ وہ 90 دن میں الیکشن نہیں کرانا چاہتے کیونکہ آئین بھی واضح کہہ چکا ہے کہ 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں اور آئین بھی یہی کہتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا پہلے احتساب اور پھر انتخاب اب پرانی بات ہوگئی ہے یہ فوجی حکومت میں ہوا کرتا تھا تاہم موجودہ جمہوری دور میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ عمران خان کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پہلی خوشی تو اس بات کی ہے کہ عمران خان کو رولز آف لاء سمجھ آگیا ہے انہوں نے کچھ گرفتاریوں پر اپنی غلطی بھی تسلیم کی ہے ۔