• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہی ہوا نا جس کا ہمیں ڈر تھا،لاکھ جتن کئے،ہاتھ بھی جوڑے،پاؤں بھی پڑےاور تو اور ناک سے لکیریں بھی نکالیں۔دنیا بھر نے ہمارا تماشا بھی لگایا لیکن عالمی سود خور ادارے نے ایک نہ سنی اورصاف کہا کہ’’مانا کہ ہماری سب شرطیں مانوگے لیکن اب بھی ہمارے تحفظات برقرار ہیں ،واپس جارہے ہیں خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے کہ اعتماد بھی کیا جاسکتا ہے کہ نہیں پہلے بھی تو آپ نے وعدہ خلافی کی ہے‘‘۔افسوسنا ک خبر ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین پیشگی شرائط اور تمام اقدامات پر معاملات طے پا گئے ہیں تاہم اسٹاف سطح کا معاہدہ نہیں ہوسکا ، آئی ایم ایف مشن نےمعاہدے کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹرز کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔ ایک عرصہ قبل بھی ہمیں جھانسہ دیاگیاتھا کہ ہمارے دوست فکر نہ کرنا ہمارا ساتواں بحری بیڑہ آپ کی مدد کے لئے آ رہا ہےمگر ہم اس کی آمد کے منتظر ہی رہے، بعد ازاں اس کے چھٹے ہوئے غنڈے نے ہم پر رات کی تاریکی میں جنگ مسلط کردی۔ ہم نے یہ جنگ ایمان کی قوت سے جیتی۔کچھ ہی سال بعد ہم پر دشمن نے کاری وار کیا اور ہمارا طاقتور بازو ہم سے جدا کردیا پھر بھی ہم سبق حاصل کرتے دکھائی نہیں دیے اور اپنی بقا کے لئے ایٹمی طاقت حاصل توکرلی مگر معاشی قوت بننے کی بجائے ہم نے زراعت پر پلاٹ پرمٹ کو ترجیح دی ،برآمدات کی بجائے درآمدات کوشعاربنالیا۔دشمنی بھی ملک سے ایسی کی کہ ہر شے باہرسے منگوانے کی بجائے خود بنانےپر توجہ ہی نہ دی۔ہم نے اب بھی سبق نہیں سیکھا کہ ہم معاشی دیوالیہ پن کے انتہائی قریب ہیں، عالمی سود خور ادارہ غالباً چاہتا بھی یہی ہے کہ پاکستان کا خدانخواستہ دیوالیہ نکل جائےہمارا اس سے کیا لینا دینا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم اپنا زرعی رقبہ بڑھائے بغیر اور برآمدات کوفروغ دیے بغیر اس دلدل سےنہیں نکل سکتے۔ہمارےکھربوں روپے امریکہ اور یورپی ممالک سمیت دنیا بھر کے بینکوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، پر تعیش گھر، فلک بوس پلازے، جزیرے کیا کچھ نہیں ہے۔ہمیں امداد اور قرض دینے والے یہ سب جانتے ہیں اسلئے ہم سے کنی کترارہے ہیں۔ہمارے سارےمہربان دوست عالمی مالیاتی ادارے کے ہمنوا بن چکے ہیں، وہ اگر ہماری مدد بھی کرتے ہیں تو ان کاپیسہ ہمارے خزانے کی صرف زینت بنتا ہے اسے دیکھ سکتے ہیں مگر خرچ نہیں کر سکتے۔معاشی طور پر اس غلام قوم پر مسلط حکومت نے پچاسی رکنی کابینہ بنالی ہے۔ قرض کی پیتے تھے مے اور... !

کبھی امریکہ،برطانیہ،فرانس،جرمنی کی کابینہ کے اتنے ارکان دیکھےہیں؟ وزیراعظم تو دس منٹ میں پچاسی ارکانِ کابینہ کے نام بھی نہیں بتاسکیں گے اگر فوری طور پر کوئی پوچھ لے۔رات بھر میڈیا انتظار کرتا رہا کہ قرضہ ملنے کی خبر ابھی بریک ہوگی لیکن وفاقی سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب نے بتایا کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹرز کی منظوری کے بعد جلداسٹاف سطح کا معاہد ہ طے پاجائے گا ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف مشن نے یقین دہانی کرائی ہےکہ اسٹاف سطح کا معاہدہ جلد ہو جائے گا۔واشنگٹن کا فیصلہ لگتا ہے جلد آنے والا نہیں، آئی ایم ایف کا وفد شاید اتنا بااختیار نہیں تھاکہ خود فیصلہ کرتا یا امریکہ کی طرح حیرت میں مبتلاتھاکہ جب دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ میں اس وقت کے صدر مشرف کو سات دھمکی آمیز شرائط پیش کی گئیں توانہیں حیرت ہوئی کہ ہم تو دوتین شرائط مان جانے کی توقع کررہے تھے یہ تو مٹی کے شیر ثابت ہوئے،ساری کی ساری شرائط مان لیں،کہیں ایسا تو نہیں کہ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ دوسری طرف عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت پیداواری صلاحیت میں اصلاحات کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، وسائل کے اعتبار سے پیداوار نہ ہونا ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ہم بھی یہی رونا رو رہے ہیں کہ اپنے زور بازو پر بھروسہ کیا جائے۔ایک رپورٹ کے مطابق تمام شعبوں پر ٹیکسوں کو ہم آہنگ کرنے سے معیشت میں بہتری آسکتی ہے، رئیل اسٹیٹ کے شعبے کے بجائے مینوفیکچرنگ اور تجارتی شعبے کو بہتر کیا جائے۔ سب ہم سے یہی کہتے ہیں لیکن ہم ہر بارشکستہ رہنے کی کوشش کرتےہیں۔ترین فارمولا، مفتاح اکنامکس کے بعد ڈار ڈاکٹرائن کو بھی کوئی لفٹ نہیں کرارہا۔پھر اب کیا ہوگا کوئی تو حل نکلے گا۔ہم تو کہتے ہیں کہ

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

تازہ ترین