• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ اتوار (12فروری) بائیں بازو کے کارکنوں کی بڑی تعداد لاہور فیض امن میلہ میں شریک ہوئی جس میں بائیں بازو کے مشترکہ لائحہ عمل پر غورو خوض ہوا اور درج ذیل اعلامیہ پیش کیا گیا جو قارئین کی نذر ہے:’’فیض امن میلہ کے شرکا پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کش عوام اور مظلوم لوگوں کو ظلم و استحصال سے نجات اور ہر طرح کی طبقاتی،نسلی، صنفی، مذہبی، ماحولیاتی اور اطلاعاتی تفریق کے خلاف جدوجہد کرنے والے انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔خاص طور پر فیض احمد فیض اور تمام روشن خیال دانشوروں کی رجعت پسندی کے خلاف اور انسانی نجات کے لئے سماج وادی نظریاتی جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں عالمی سرمایہ داری اور سامراجی مالیاتی و فوجی بالادستی کے ہاتھوں محنت کش عوام، امیر غریب کی تفریق، ماحولیاتی بربادی، امن امان کی تباہی اور انسانی و صنفی و اقلیتی حقوق کی پامالی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ انسانیت اور فطرت کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

خطے میں تین نیوکلیئر طاقتوں میں تصادم، ایشیا کے تابناک مستقبل کو گہنائے جارہا ہے جس سے مغربی سامراجی طاقتیں فائدہ اُٹھا کر ایشیا اوربحرالکاہل کو ایک ممکنہ تباہ کن جنگ کا میدان بنانے جارہی ہیں جس کے خلاف ایشیا کے عوام کو متحد ہوکر اسے ایک امن کا خطہ بنانے کی جہد کرنا ہوگی۔

پاکستان میں استحصال کے مارے محنت کش عوام، زوال پذیر متوسط طبقے اور محروم قومیتوں کے مظلوم عوام کیلئے مہنگائی، غربت، بیروزگاری، گرتی ہوئی قوت خرید ، ریاستی جبر اور ناانصافی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

ملکی معیشت، سیاست اور کاروبارِ حکومت پر اُمرا اور مختلف جرائم پیشہ مافیاز کے قبضے اور بورژوا سیاسی جماعتوں کی باہم بے اصولی کشمکش کے باعث جیسا کیسا نحیف آئینی و جمہوری و وفاقی اور سویلین میثاق جمہوریت تھا ،تلپٹ ہوکر رہ گیاہے۔بیشتر طبقاتی، شہری، انسانی، صنفی اور اقلیتی و قومیتی حقوق و آزادیاں پامال ہوتی چلی گئی ہیں۔ طفیلی سلامتی کی بھاری اور مفت خور ریاست اور دست نگرونحیف کرایہ خور معیشت اور مالیاتی کنگالی کے باعث پاکستان کا موجودہ بحران، باہم دست و گریباں حکمرانوں کے بس سے باہر ہوگیا ہے اور آمرانہ قوتوں کی تباہ کن مداخلت سے مملکتی انہدام (Iomplosion) کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

اس ہمہ گیر وجودی بحران کے پیش نظر ہم درج ذیل مطالبات کرتے ہیں:

1۔ پاکستان اور اس کے عوام کا بنیادی مسئلہ معاشی و انسانی سلامتی کا ہے جس کا اظہار مالیاتی نادہندگی، پیداواری انحطاط، افراطِ زر، بیروزگاری، انتہائی طبقاتی استحصال، علاقائی تفریق اور سب سے بڑھ کر 40 فیصد سے زیادہ مہنگائی اور 90 فیصد آبادی کی قوت خرید میں بے تحاشہ کمی کا ہے۔اس کا کوئی پائیدارحل آئی ایم ایف کے پاس ہے نہ حکمران طبقات کے پاس ہے جو اُمرا کے قبضے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ معیشت کی انقلابی کایا پلٹ کے بغیر اور استحصالی طبقات کے غلبے کے خاتمہ کے بغیر معاشی ترقی ممکن ہے نہ انسانی سلامتی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں عوامی ترقی کی پیداواری معیشت کی بنیاد پر پائیدار اور شراکتی ترقی کو ممکن بنایا جائے۔

2۔ طبقاتی، معاشی، انسانی، شہری و سماجی حقوق بحال کئے جائیں بشمول حق روزگار، حق تعلیم، حق صحت و صاف ماحول، حق اظہار، حق تنظیم سازی بشمول لازمی ٹریڈ یونینز، اسٹوڈنٹ یونینز کی بحالی،صنفی برابری، اقلیتوں کی بطور مساوی حیثیت و شرکت، بچوں، معذوروں اور ضعیفوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

3۔ کم از کم اُجرت پچاس ہزار روپے کی جائے، بیروزگاری الائونس دیا جائے، بہتر تعلیم مفت اور لازمی کی جائے، بچوں سے مشقت بند کی جائے۔ خواتین کو مساوی کام کی مساوی اجرت کے ساتھ ساتھ ہر سطح پہ مساوی نمائندگی دی جائے اور پدرشاہی روایات اور جبر کا خاتمہ کیا جائے۔

4۔ سیاسی بحران کے حل کیلئے فوج کی سیاست میں مداخلت بند، عدلیہ کی مقننہ کے دائرے میں مداخلت کا خاتمہ، آزاد عدلیہ کیلئےضروری ہے کہ ججوں کا انتخاب پارلیمنٹ دوطرفہ اتفاق سے کرے۔ایک وقت پر آزادانہ و منصفانہ انتخابات کیلئے تمام جماعتوں میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور جمہوری میثاق نو تشکیل دیا جائے۔ جمہوری کلچر اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔

5۔ مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مسلسل اور ہر سطح پہ اس کی تمام صورتوں بشمول نظریاتی و حربی مظہر کا قلع قمع کیا جائے اور ریاست و مذہب اور تعلیم ود ینیات کو علیحدہ کیا جائے اور اقلیتوں کو بطور مساوی شہری کے تسلیم کیا جائے۔

6۔ پاکستان میں شامل تمام وفاقی اکائیوں / قومیتوں کی مساویانہ، رضاکارانہ اور جمہوری شراکت داری کی بنیاد پر ایک سیکولر عوامی جمہوریہ کی قومی تشکیل نو اور شراکتی سماجی میثاق کثرت میں وحدت کے اصول پر تمام زبانوں اور قومی ثقافتوں بشمول سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، براہوی، چترالی، کشمیری، ہند کو، گوجری، گلگتی، بلتی اور اردو کا فروغ۔

7۔ بلوچستان نو آبادی نہیں۔فوج کشی بند کی جائے اور بلوچ مسئلے کا جمہوری حل تلاش کیا جائے۔ بلوچ نوجوانوں کی نسل کشی بند کی جائے اور مِسنگ پرسنز کو برآمد کیا جائے اور قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ بلوچستان کے ذرائع اور ترقی وہاں کے عوام کا حق ہے اور ان کی وفاق میں مساوی و رضاکارانہ شرکت کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

8۔ خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی واپسی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔ پشتون قبائلی عوام کی امن تحریک کو اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کیا جائے اور ریاستی تحفظ فراہم کیا جائے۔ گمشدہ نوجوانوں، سیاسی کارکنوں کو بازیاب اور علی وزیر کو رہا کیا جائے۔

9۔ خطے اور ہمسائیوں میں جاری پراکسی وارز ختم کی جائیں۔ پرامن بقائے باہمی، امن، عدم مداخلت، باہمی تجارت اور علاقائی تعاون کو بڑھاتے ہوئے تنازعات کا پرامن حل تلاش کیا جائے اور سارک کو دوبارہ متحرک کیا جائے۔

یہ اجلاس تمام ترقی پسند، حقیقی جمہوریت دوست اور عوامی تنظیموں اور ترقی پسند دانشوروں کو محنت کش عوام کی سماجی نجات، انسانی و شہری و معاشی حقوق، امن و رواداری، انسان و ماحول دوستی اور انقلابی کایا پلٹ کیلئے وسیع البنیاد مشترکہ جدوجہد کی اپیل کرتا ہے۔ سوشلزم زندہ باد!‘‘

شکستہ پا ہوں ملال سفر کی بات سنو

مسافر رہ صحرائے ظلمت شب سے

اب التفات نگار سحر کی بات سنو

سحر کی بات امید سحر کی بات سنو

(فیض احمد فیض)

تازہ ترین