• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مئی 2018ءکے بعد سے جنوری 2022ءتک پنجاب بدترین انتظامی مسائل کا شکار رہا۔شہباز شریف پنجاب کے آخری کامیاب منتظم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔پنجاب آج جس شکل میں نظر آ رہا ہے،اس میں شہباز دور حکومت کے دس سال کا اہم کردار ہے۔ویسے تو 2017ءمیں ہی شہباز شریف کی پنجاب حکومت کو عملی طور پر نیب اور عدالتوں کے ذریعے مفلوج کردیا گیا تھا۔ایگزیکٹیو کے معاملات بھی عدالتیں دیکھ رہی تھیں،اسپتالوں کے دورے ہوں یا پھر پنجاب کی جامعات میں وائس چانسلرز کا تقرر،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہر انتظامی معاملے میں آگے آگے نظر آتے تھے۔فروری 2018ء میں معروف بیوروکریٹ احد خان چیمہ کو بھی اس لئے گرفتار کیا گیا کہ اورنج لائن سمیت اہم ترین ترقیاتی منصوبوں پر کام رُک جائے اور یوں عام انتخابات میں شہباز حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔بہرحال جولائی 2018کے عام انتخابات کے بعد پنجاب کے عوام کو شہباز شریف کے بجائے عثمان بزدار دیا گیا۔ عثمان بزدار کا دور پنجاب کی تاریخ کا بدترین دور تھا۔ کرپشن اور بدانتظامی اپنے عروج پر رہی۔ساڑھے تین سال بعد عثمان بزدار کو ہٹایا گیا تو قرعہ فعال حمزہ شہباز کے نام نکلا۔حمزہ شہباز نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کو مضبوط کرنے کے حوالے سے بہت کام کیا ہے ۔ 2008سے 2022تک اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں ہونے والے اکثریتی ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوتی رہی تو اس کا کریڈٹ حمزہ شہباز کو جاتا ہے ۔مگر حمزہ شہباز کی بدقسمتی رہی کہ وہ غلط وقت پر وزیراعلیٰ بنے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بنے تب مسلم لیگ ن کا برا وقت چل رہا تھا،باقی رہی سہی کسر حمزہ شہباز صاحب کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم نے پوری کردی۔بہرحال پھر پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے ۔ چوہدری صاحب کے دور میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کرپشن کا گڑھ بنا رہا۔مبینہ طور پر ان کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی پر ٹرانسفر پوسٹنگ اور ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگا۔پنجاب میں زبان زد عام تھا کہ ڈی سی،ڈی پی او،کمشنر اور آرپی او کی تعیناتی کے ریٹ مقرر ہیںجس کے باعث پنجاب کے تمام اضلاع میں جرائم کی شرح اور محکمہ ریوینیو میں ریکارڈ کرپشن دیکھنے کو ملی۔پرویز الٰہی کے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد پنجاب میں نگران حکومت کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔قرعہ فعال معروف صحافی محسن نقوی کے نام نکلا۔تنقید کی گئی کہ ہر مرتبہ ایک صحافی کو ہی نگران وزیراعلی پنجاب کیوں بنایا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں مسلسل تین نگران حکومتوں میں صحافی وزیراعلیٰ پنجاب بنے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صحافی کسی بھی بیوروکریٹ کی نسبت زیادہ غیر جانبدار ہوتے ہیںکیونکہ بیوروکریٹس نے بلواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حکومت کے ماتحت کام کیا ہوتا ہے اور ایک بیوروکریٹ چاہتے ہوئے بھی اپنی غیر جانبداری قائم نہیں رکھ سکتا۔صحافی بھی اپنی رائے یا بطور مالک اپنے ٹی وی چینلز میں جانبداری کا مظاہرہ کر جاتے ہیں مگر ایک تو وہ جانبداری مستقل نہیں ہوتی اور وہ افسرِشاہی کی نسبت زیادہ قابل قبول ہوتے ہیں۔اس لئے تحریک انصاف نے جن بیوروکریٹس کا نام دیا تھا ،ان میں سے ایک افسر تو ابھی ریٹائر ہی نہیں ہوئے تھے اور دونوں افسران نے مختلف حکومتوں میں کام کیا ہوا تھا۔اس لئے محسن نقوی کا نام ہر حوالے سے بہتر تھا۔بہرحال معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پہنچا تو کمیشن نے متفقہ طور پر محسن نقوی کے نام پر اتفاق کیا۔محسن نقوی صاحب نے پہلے ہی ہفتے میں اپنی سلیکشن کو درست ثابت کیا۔انتہائی اچھی شہرت کے حامل دیانتدار افسر سمیر احمد سید کو اپنا پرنسپل سیکریٹری تعینات کیا۔چیف سیکریٹری اور آئی جی کی تعیناتی میں بھی بہترین افسروں کا چناؤ کیا گیا۔ان دونوں افسروں نے وزیراعلیٰ آفس کے ساتھ مل کر پنجاب میں انتظامی افسروں کی جو ٹیم تعینات کی،کوئی بھی جماعت ان افسروں کی دیانتداری اور قابلیت پر انگلی نہیں اٹھا سکتی۔ محسن نقوی نے افسروں کی تعیناتی میں وہی پیمانہ مقرر کیا جو کبھی شہباز شریف کیا کرتے تھے۔ صوبے کے بہترین افسران کو آر پی او،کمشنر ،ڈی سی اور ڈی پی او تعینات کیا گیا۔آنیوالے دنوں میں ان تعیناتیوں کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہونگے۔آج ایک مرتبہ پھر ایگزیکٹیو کے معاملات میں مداخلت شروع ہوچکی ہے۔پہلے لاء افسران کے معاملے پر حکم امتناعی جاری کیا گیا اور اب لاہور پولیس چیف ایک متنازعہ ترین شخص کو بحال کردیا گیا ہے۔حالانکہ اگر جسٹس سجاد علی شاہ کے فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے معزز عدالتیں یہ کہتی ہیں کہ Excutive & Judiciary are Seprateاور انتظامیہ عدالتی اختیارات استعمال کرنے کی مجاز نہیں ہے تو پھر یہی اصول ہماری معزز عدالتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔میری تمام اداروں سے استدعا ہے کہ خدارا اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔انتظامیہ کو بھی کوئی حق نہیں ہے کہ عدالتی معاملات میں مداخلت کرے مگر عدالتوں کو بھی اپنے معاملات پر خود نظر ثانی کرنی چاہئے۔پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے، اسلئے کوئی بھی عدالتی فیصلہ پارلیمنٹ سے سپریم نہیں ہوسکتا۔سسکیاں لیتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے تمام اداروں کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔

تازہ ترین