وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ اور بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی چیئرپرسن شازیہ مری نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں خواجہ سراؤں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
یہ بات انہوں نے پیر کو پائیدار ترقی کے پالیسی ادارہ (ایس ڈی پی آئی) اسلام آباد کے زیر اہتمام زوم لنک کے ذریعے منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پسے ہوئے اور پسماندہ طبقے خاص طور پر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں مالی مسائل، عوام میں آگاہی اور معاشرے میں قبولیت کا مسئلہ سرفہرست ہیں۔
شازیہ مری نے پاکستانی معاشرے کے اس پسماندہ اور کمزور طبقے کی فلاح و بہبود میں پائیدار ترقی کی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے سماجی و اقتصادی تعاون کو سراہا۔
انہوں نے خواجہ سرا برادری کو درپیش مسائل کو اُجاگر کرنے میں بندیا رانا اور ریم شریف کے کردار کی بھی تعریف کی۔
شازیہ مری نے ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلیری کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس موضوع پر مزید سیمینار منعقد کریں تاکہ اس مسئلے کو اُجاگر کیا جا سکے۔
معاشرے کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو پاکستان میں خواجہ سراؤں کو درپیش مشکلات کے بارے میں آگاہ کریں جنہوں نے اپنی جدوجہد میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خواجہ سرا کمیونٹی کی مرکزی دھارے میں شمولیت کو دیکھنے کی بڑی خواہاں ہیں۔
شازیہ مری نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام بی آئی ایس پی نے خواجہ سراؤں کی مالی امداد نقد رقم کی تقسیم کے ذریعے شروع کر دی ہے۔ خواجہ سرا اب 7000 روپے کی سہ ماہی امداد کے اہل ہیں۔
وفاقی وزیر شازیہ مری نے کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں اور رجسٹریشن کےلیے قومی شناختی کارڈ لے کر بی آئی ایس پی کے قریبی تحصیل دفتر جائیں۔
انہوں نے بی آئی ایس پی کی ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن اسکیم کو بھی اُجاگر کیا اور کہا کہ بی آئی ایس پی نے پاکستان میں خواتین کے سماجی و اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں خود کو ایک کامیاب ماڈل کے طور پر ثابت کیا ہے۔