پاکستان کا سب بڑاشہرکراچی، مختلف ادوار میں بڑے بڑے چیلنجز سے نبرد آزما رہا ہے، اس شہر میں جہاں قائداعظم آسودہ خاک ہیں، منشیات کی وبا کا سامنا کر رہاہے۔ پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں منشیات فروش جس طرح اپنا تسلط قائم کررہے ہیں اور جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل چرس، افیون، ہیروئن، بھنگ، آئس، کوکین، ایس ایل ڈی، گانجا، الکوحل، گٹکا، گلو(صمدبانڈ) سمیت منشیات کی 21سے زائد اقسام کے نشے میں مبتلا ہوکر تباہی کا شکار ہو رہی ہے، اس سے خوفناک سماجی بحران جنم لے رہا ہے۔ ملک میں دو درجن سے زائداداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کی ترسیل اور فروخت روکیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بالخصوص، ہیروئن و چرس کس طرح کراچی پہنچ جاتی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ منشیات لاکھوں زندگیوں کو تباہ کر چکی ہے لیکن یہ اسلامی جمہوریہ جسے اسلام کا قلعہ بھی کہا جاتاہے،ان دنوں منشیات فروشوں کیلئے محفوظ ومامون اورلاکھوں خاندانوں کیلئے غیر محفوظ ہے، اس انسانی المیے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا جارہا۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کی لت نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ نوجوان نسل منشیات اور اس کی وجہ سے دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لئے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے۔ نشہ ،جسم کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر دیتا ہے، اس لئے مستقبل کے ضامن یہ نوجوان جرائم کا راستہ اختیار کررہے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد نشے کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے منشیات فروشوں کی آلہ کار بھی بن جاتی ہے۔ 1979تک پاکستان میں ہیروئن کا نام کسی نے بھی نہیں سنا تھا لیکن 80کی دہائی میں نام نہاد امریکی جہاد کے نتیجے میں جہاں کلاشنکوف کلچر پاکستان میں متعارف ہوا، وہاں ہیروئن کی لعنت نے بھی اسلام کے اس قلعے میں ڈیرے ڈال دیے۔ اس نشے نے لاکھوں خاندانوں کو تباہ کرکے پاکستان میں کئی کروڑ پتی و ارب پتی پیدا کئے، ان میں اکثر سیاست سمیت مختلف شعبوں میں معتبربھی ہیں۔ ایک عرصے سے ہیروئن سے بھی زیادہ برق رفتاری سے ایک اور نشے نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جسے کرسٹل میتھ یا آئس کہا جاتا ہے، یہ نشہ ’’میتھ ایمفٹامین“ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے، جو چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل کی قسم کی سفید شے ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس مقصد کیلئے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے جسم میں اُتارنے کا ایک ذریعہ انجکشن بھی ہے۔ یہ نشہ کراچی میں کس قدر بھاری مقدار میں موجود ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں سرکاری اہلکار بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکے ہیں جہاں کرسٹل تیار کی جاتی تھی۔ یعنی یہ نشہ اگرچہ اسمگل ہوکر بھی یہاں آتا ہے لیکن اس شہر میں اس کی لیبارٹریاں بھی قائم ہیں۔ایک زمانے میں منشیات کی فروخت کےلئے کراچی کے مخصوص علاقے معروف تھے، اب یہ ہر جگہ دستیاب ہیں، یہاں تک کہ وزیراعلیٰ ہائوس کے قریبی علاقے اور ڈاکس تھانے سلطان آباد چوکی کے قریب کراچی بھر کے منشیات فروش دندناتے پھرتے ہیں، جب جب اہلِ محلہ ان کیخلاف نکلتے ہیں یا کوئی پولیس افسر کارروائی کرتاہے تو اس چوکی کی پولیس ایسی کارروائی میں تعاون نہیں کرتی،ان علاقوں میں بااثر پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں جنہیں حکام کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی کا خوف تک نہیں ہوتا۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ نوجوان نسل کی تباہی پر جہاں حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی وہاں فلاحی اداروں کا کردار بھی قابل ذکرنہیں۔حالانکہ اس کیلئے زیادہ رقم کی بھی ضرورت نہیں،اس امر کا اندازہ گزشتہ ہفتہ ماما جی ایڈی کئیر ویلفیئر ٹرسٹ کے دورے کے دوران ہوا،یہ ادارہ غلام رسول اور تاج محمدکاکاخیل کی نگرانی میں اپنی مدد آپ کے تحت چلایا جارہا ہے اس ادارے کو کوئی مالی امداد فراہم نہیں کرتا اور عطیات بھی جمع نہیں کئے جاتے ۔اس ادارے میں70فیصد نادار اور زکوٰۃ کے مستحق مریضوں کا نہ صرف یہ کہ علاج کیا جاتا ہے بلکہ مکمل علاج کرنے کے بعد ان مریضوں کے لئے نوکری یا معاش کے کسی ذریعے کو تلاش کر کے معاشرے کا کار آمد انسان بنانے میں بھی مدد کی جاتی ہے۔ یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ذراسی توجہ اور اخلاص کی ضرورت ہے۔