• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب اگر آٹھ دن میں چار کانفر نسوں میں مسلسل شرکت کرنا ہو، کراچی اور لاہور میں 80سیشنز ہوں اور بحث بھی کرنا ہوتو پھر میری طرح ان دو شہروں کی آلودگی بھی اندر سمیٹ لینا تو ہوگا تو پھر یہی، آکے ہسپتال، ڈرپس اور ہاتھوں کا بندھا ہونا۔ بہرحال چور چوری سے جائے، ہیراپھیری سے نہ جائے۔ ایک ہاتھ فارغ کیوں رہے اور پھر روح فرسا خبر کہ بلوچستان کے سردار صاحب نے ماں اور بیٹوں کی نافرمانی کرنے پر انہیں ماراہی نہیں، بلکہ ان کی لاشوں کو مسخ کرکے کنویں میں پھینک دیا۔ بارکھان کے علاقے کے لوگوں کو ان کے اذیت خانوں کا پتہ تو تھا مگر بلوچستان میں سرداروں کے آگے بھلا کون چوں کرے مگر ابھی تک مجھے یاد ہے کہ چند سال گزرے، ایک بلوچ سردار نے سات بہنوں کو زندہ دفن کروا دیا تھا، بس ایسا ہی شور مچا تھا جیسا کہ سارا شہر لاشیں لئےاور سینہ کوبی کررہاہے۔ خدا کرے کہ یہ لوگ بھی دہشت گرد کہہ کر مار دیے جائیں کہ اصل دہشت گردوں نے تو نہ پولیس دفاتر کو چھوڑا اور نہ مسجدوں کواور بلوچستان ہی میں ایک ڈاکٹر (خاتون) کو موردالزام ایسا ٹھہرایا کہ وہ آج بھی ہمت اور تحمل کے ساتھ غیر ملک میں رہتے ہوئے بھی ملک کی خواتین کو رابطے میں رکھے ہوئے ہے۔

مگر ذرا شور مچاتی شیری رحمان کی بات تو سن لیں۔ وہ جب سے ماحولیات کی وزیر بنی ہیں۔ ہر روز پلاسٹک کی بوتلیں توڑتی اور اتنی غضب ناک ہو جاتی ہیں کہ اپنا بازو بھی کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کا گند اٹھاتے اٹھاتے توڑ بیٹھیں۔ جذباتیت اپنی جگہ۔ اسمبلی میں پلاسٹک کی بوتلوں کو بند کرنے سے پہلے ذرا مارکیٹ میں تو جائو۔ پہلے یہ دیکھو کہ لال شربت کے علاوہ اب تو ہر طرح کا کیچ اپ بھی پلاسٹک کی بوتلوں میں آرہا ہے۔ گزشتہ برس دو بار اٹلی اور اسپین جانے کا اتفاق ہوا، وہاں سب جگہ شیشے کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ مجھے یاد ہے1960ء میں پہلے پہل پلاسٹک دانہ امپورٹ ہونا شروع ہوا، پھر پلاسٹک کی فیکٹری ایسی قائم ہوئیں کہ دفتروں، گھروں، عبادت گاہوں سب جگہ پلاسٹک کی اشیا استعمال ہونا شروع ہو گئیں۔ پہلے ہم سب نسبت روڈ کی کباڑیے کی دکان سے شراب کی خوب صورت بوتلیں، پاک اور دھو کر گھر میں لاکر پانی پیتے تھے۔ اب تک مشروباتِ ممنوعات اسی طرح خوب صورت بوتلوں میں دستیاب ہیں۔ پہلے تو ہم لوگوں نے اماں ابا کے گھروں میں استعمال ہونے والی پلیٹیں اور ڈونگے توڑے، خوش ہوئے کہ پلاسٹک کے ٹی سیٹ اور گلاس ہمیں ماڈرن بنا رہے ہیں۔ ہمارے گھروں میں لوٹوں سے لے کر پتیلیاں، جو سب تانبے کی تھیں اور ہر سال رمضان سے پہلے گھروں یا گلی میں کسی کاریگر سے قلعی کروائی جاتی تھیں۔ جہیز میں دینے والی تانبے، پیتل کی دیگیچیوں پر بیٹیوں کے نام بھی کھدوائے جاتے تھے، اب تو چائنا کراکری بھی اس قدر مہنگی ہے کہ صرف دیکھنے کو دستیاب ہے وہ بھی دکانوں پر، پرانے زمانوں میں خاص طور پرکراکری اور کٹ گلاس واز، آپ کی نشانی ہوتی تھی کہ آپ باہر کے ملکوں سے ہوکر آئے ہیں۔

چلیں کراچی کے ایل ایف کی کچھ دیگر باتیں کہ حنا جیلانی سے لے کر شہناز وزیر علی اور کراچی کی ساری پرانی دوستوں سے نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ خواتین کے جائیداد میں حصہ کے موضوع پر گرما گرم بحث ہوئی۔ شکر ہے کوئی نصیحتیں نہیں تھیں کہ شام ہی سے گھبرائے گھبرائے تھے کہ باہر ساری ٹریفک رُکی ہوئی ہے اور گولیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ طرح طرح کی افواہیں کہ کمرے میں دس بجے آکر پتہ چلا کہ پولیس آفس میں پولیس یونیفارم پہنے چار دہشت گرد حملہ آور آئے ہوئےہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ سب دہشت گرد 15,15برس کے تھے۔ ادھر معصوم فوجی، بارڈر بند کرکے سوچتے ہیں کہ ان کا راستہ بند کردیا ہے۔ دہشت گردتو میلوں لگی پاکستانی باڑ تک توڑڈالتے ہیں۔

لاہور فوراً آنا پڑا کہ فیض فیسٹیول جوکہ منیزہ ہاشمی کئی ماہ کی محنت سے خوب صورت پروگرام کے ساتھ آراستہ کرتی ہیں، اس دفعہ یہ دوآتشہ تھا کہ انڈیا سے پنجابی کے شاعر چمک اور اردو کے ممتاز شاعر جاوید اختر، خود انڈیا میں بھی خاص کر مودی حکومت اور ہندو توا پہ شاعری میں برہمی کے اظہار کے لئے ہر کانفرنس میں بلائے جاتے ہیں مگر چونکہ وہ نظمیں پاکستان میں نہیں پڑھ سکتے تھے تو انہوں نے کچھ نظمیں اور غزلیں سناکر بہت داد سمیٹی اور بس افتخار عارف کی دبیز کلیات بغل میں دبائے رخصت چاہی۔

بہت عرصے بعد یا شاید پہلی دفعہ ہماری دو سینئر خواتین صحافیوں شمیم اکرم الحق اور فریدہ حفیظ کو لائف ٹائم انعامات سے نوازا گیا۔ ہماری انیس مرزا جو گزشتہ دنوں انتقال کرگئیں، یہ تینوں صحافی اسلام آباد میں پارلیمنٹ گیلری پہ لکھا کرتی تھیں۔ اسی زمانے میں ماریانہ بابر اور نصرت جاوید بھی گیلری کالم لکھتے تھے۔ اب تو خیر سے عاصمہ شیرازی، جس کی کتاب کی تقریب، ہر ادبی کانفرنس میں زیر بحث رہی اور حامد میر گفتگو میں اب کھل کر اور شگفتگی کے ساتھ بول رہے ہیں۔ البتہ فیض فائونڈیشن کے پروگراموں میں بشریٰ رحمان پر بھی ایک سیشن چونکادینے والا تھا لیکن بولنے والا یہاں بھی ڈاکٹر ناصر عباس نیئر ہو تو یقیناً انہوں نے کوئی فلسفہ بھی بشریٰ رحمان کی مذہبیت اور سیاسی مصروفیت میں سے نکال لیا ہوگا۔ البتہ یاسمین شیخ نے کراچی اور لاہور دونوں جگہ فیض کی سنجیدہ نظموں کو پیروں کی تھرک میں بدل دیا تھا چونکہ نوجوان کانفرنس میں بہت تھے تو انہیں لطف بھی زیادہ آتا ہوگا۔

تازہ ترین