• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائٹ ہاؤس ہر صبح امریکی صدر کی مصروفیات کا شیڈول جاری کرتا ہے۔19 فروری بروز اتوار جاری ہونے والے شیڈول میں بظاہر کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کہ یہ شیڈول پیر کا تھا، کیوں کہ اتوار کو تو چُھٹی ہوتی ہے۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ صدر جو بائیڈن پیر کی شام پولینڈ کے دو روزہ دورے پر دارالحکومت، وارسا کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ چوں کہ پولینڈ، یوکرین کا پڑوسی ہے، جہاں ایک سال سے جنگ جاری ہے، اِس لیے میڈیا نے اس دورے کو ذرا مختلف انداز میں دیکھا۔ 

اِس شیڈول میں صحافیوں کی دل چسپی کی ایک بات یہ بھی تھی کہ دورے میں کم ازکم دو ایسے طویل اوقات تھے، جن میں صدر بائیڈن کی کوئی ملاقات طے نہیں تھی۔ اس پر کچھ تحقیقاتی رپورٹرز کو خیال آیا کہ ممکن ہے، امریکی صدر یوکرین بھی جائیں کہ ایک تو وہ ایک ہی سرحد پر ہیں اور پھر 26 فروری کو جنگ کو ایک سال بھی مکمل ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں موجود صحافیوں نے میڈیا بریفنگ کے دَوران بار بار یہ سوال اُٹھایاکہ کیا صدر بائیڈن کے یوکرین دَورے کے بھی امکانات ہیں، لیکن ترجمان نے ہر بار مکمل نفی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں اور صدر وارسا سے کہیں نہیں جارہے، لیکن یہ بیان درست نہ نکلا اور صدر بائیڈن نے اندازوں کے عین مطابق یوکرین کا خفیہ دورہ کرلیا۔ 

بعد میں معلوم ہوا کہ جمعے کو یعنی صرف دو روز قبل یہ دَورہ فائنل ہوا تھا اور بہت ہی خاموشی سے تیاریاں ہو رہی تھیں، جن کا علم صرف صدر کے انتہائی قریبی مشیروں کو تھا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ صدر بائیڈن کو پیر کی شام پولینڈ کے لیے روانہ ہونا تھا، لیکن ایئر فورس وَن طیارہ، جس میں امریکی صدر سفر کرتے ہیں، صبح ہی اپنی یورپی منزل کی طرف پرواز کر گیا۔ ائیر فورس وَن میں ایک مختصر سی ٹیم رکھی گئی، جس میں صدر کے قریبی مشیر، طبّی اور سیکیوریٹی اہل کار شامل تھے۔ دو صحافیوں کو بھی اِس خفیہ دورے میں ساتھ جانے کا موقع دیا گیا، تاہم اُن سے راز داری کا حلف لیا گیا اور اُن سے موبائل فونز لے لیے گئے۔ دونوں صحافیوں کو بتایاگیا کہ اُنہیں اُس وقت تک خبر دینےکی اجازت نہیں، جب تک امریکی صدر یوکرین نہیں پہنچ جاتے۔

یہ حالیہ زمانے میں کسی بھی امریکی صدر کا خفیہ ترین دَورہ بتایا گیا ہے۔ ویسے اِس قسم کے دَورےامریکی ڈپلومیسی کےتحت، غیر معمولی نتائج حاصل کرنے کے لیے ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایک ایسےہی دورےمیں شریک ہونےکاموقع ملا۔1971 ء میں جب مشرقی بازو میں حالات انتہائی نازک تھے، تو امریکی وزیرِ خارجہ اور سلامتی امور کے انچارج تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ پاک، بھارت جنگ کے بادل منڈلارہےتھے۔ چند روز قبل ہی روس اوربھارت کے درمیان دوطرفہ دفاعی معاہدہ ہوا تھا، جس نےحالات میں غیر معمولی تبدیلی پیدا کر دی تھی کہ اس معاہدے کی رُو سے روس، بھارت کی ہر قسم کی فوجی مدد اور پُشت پناہی کا پابند تھا۔ خیال تھا کہ ہنری کسنجر کا یہ دورہ اسی پس منظر میں ہے۔ 

بین الاقوامی پریس پاک، امریکا تعلقات کے پس منظر میں خبروں کی تلاش میں اسلام آباد میں تھا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایسے دفاعی معاہدے موجود تھے، جن کے مطابق امریکا کو جنگ کی صُورت میں پاکستان کی مدد کرنی تھی۔ تاہم اِس دورے کے اختتام نے عالمی منظرنامے کو یک سَر تبدیل کر دیا۔ وزیرِ خارجہ کسنجر کی پاکستانی صدر، یحییٰ خان سے مَری میں ملاقاتیں شیڈولڈ تھیں، لیکن پہلے ہی دن ایک چھوٹی سی خبر شایع ہوئی کہ کسنجر پاکستان پہنچنے کے بعد بد ہضمی کے باعث آرام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، میٹنگ منسوخ کردی گئی ہے اور وہ دو روز تک آرام کریں گے۔ 

ابھی دو روز گزرےبھی نہ تھےکہ اچانک خبرآئی کہ ہنری کسنجر چین کا دَورہ کرکے واپس مَری پہنچ گئے ہیں۔ اس دورے میں اُن کی چین کی اعلیٰ قیادت مائوزے تنگ اور وزیرِ اعظم چو این لائی سے ملاقات ہوئی۔ اسی دَورے میں یہ طے ہوا کہ امریکی صدر اگلے سال یعنی 1972 ء میں چین کا دورہ کریں گے، امریکا، چین سفارتی تعلقات قائم ہوں گے اور یوں چین کو تسلیم کرکے اُسے اقوامِ متحدہ میں مستقل رُکن کی نشست بھی دی جائے گی۔ یاد رہے، امریکا اِس سے قبل تائیوان کو چین مانتا تھا اور اُسی کے پاس یہ سیٹ تھی۔ اِس دورے نے دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا اور اس کے اثرات بعد میں ظاہر ہوئے، جب روس ٹُوٹ گیا، مشرقی یورپ آزاد ہوا اور امریکا واحد سُپر پاور بنا اور چین نے غیر معمولی اقتصادی ترقّی کر کے عالمی طور پر دوسری بڑی طاقت کا مقام حاصل کیا۔ 

پاکستان نے اس دورے میں غیر معمولی سہولت کاری کی، جو دنیا میں کشیدگی کم کرنے میں اہم ثابت ہوئی، اِسی لیے جب مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد بھٹّو صاحب نےصدرِ پاکستان کی حیثیت سے چین کا دورہ کیا، تو چینی وزیرِ اعظم چو این لائی نے اپنی تقریر میں امریکا کو یاد دِلایا کہ وہ اس عظیم سفارت اور سہولت کاری میں پاکستان کےکردار کو نہ بھولے۔ صدر بائیڈن کا یوکرین کا دورہ بھی اسی طریقۂ کار پررکھا گیا تھا۔ ظاہر ہے، جب ہنری کسنجر چین کےخفیہ دورے پرگئے تھے، تو چین اورامریکا کے درمیان سارے معاملات پہلے ہی سے طے ہوچُکے تھے، اِسی طرح یوکرین کے اس اچانک اور خفیہ دَورے کے معاملات تمام ضروری سطحوں پر پہلےہی طے تھے۔ امریکی صدر، یوکرینی ہم منصب سے کس وقت اور کہاں ملیں گے، یہ سب منٹ ٹو منٹ شیڈول کا حصّہ تھا۔ میڈیا میں یہ خبر کس وقت اور کس طرح بریک کی جائے گی، اِس کا بھی پورا انتظام کیا گیا تھا۔

امریکی صدر کی یوکرین کے صدر کے ساتھ جنگ زدہ علاقے میں موجودگی یوکرین یا پولینڈ میں کی جانے والی کسی بھی تقریر یا پریس کانفرنس سے زیادہ عالمی سیاست کو متوجّہ کرنے کا باعث بنی۔ دارالحکومت کیو میں فضائی حملوں سے خبردار کرنے والے سائرن کی آواز نے صدر بائیڈن کے دَورے سے متعلق یہ تاثر دیا کہ امریکی صدر نے اُس وقت یوکرین کا دَورہ کیا، جب شہر روسی بم باری کی زد میں تھا۔ اس سے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خطرہ مول لینا ایک امریکی صدر کے نقطۂ نظر سے غیر معمولی تھا۔ اس کی سیکیوریٹی نہ صرف خُود اس مُلک کے لیے اہم ہے بلکہ اگر اُنہیں کوئی بھی خطرہ لاحق ہوجاتا، تو اس کے عالمی امن پر بھی اثرات مرتّب ہوتے۔ 

یہ ہالی وڈ کی کسی ایکشن فلم کا حصّہ لگتا ہے۔ امریکی حکّام کا کہنا ہےکہ اِس سے قبل بھی امریکی صدر جنگ زدہ ممالک کا دَورہ کرتے رہے ہیں، تاہم وہاں امریکی فوجیں اور سیکیوریٹی موجود ہوتی تھی، تاہم اِس مرتبہ ایسا نہیں تھا۔ یہ کہانی بھی جلد منظرِ عام پر آجائے گی کہ غیرمعمولی سیکیوریٹی رسک میں جب امریکی صدرکسی جگہ کا دَورہ کرتاہے، تو امریکی حکومت اور ادارے کس قسم کے حفاظتی انتظامات کرتے ہیں۔ یورپ میں امریکا اور مغرب کا سب سے مؤثر دفاعی حصار، نیٹو کی شکل میں موجود ہے، اِس کے علاوہ اپنے صدر کے ہر قدم کی حفاظت کے لیے فضائی نظام کو، جس میں ڈرونز سے لے کر سٹیلائیٹس تک شامل ہیں، لمحوں میں استعمال کیاجاسکتا ہے۔ 

دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ امریکی صدرکایہ خفیہ دَورہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دَورے کے فوراً بعد ہوا۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ روس کو اس دورے کا نوٹس صرف چند گھنٹے قبل دیا گیا۔ روسی حکّام کو بتا دیا گیا تھا کہ کشیدگی میں کمی کے سلسلے میں یہ دَورہ کیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یوکرین کے دورے کے لیے صدر بائیڈن نے ٹرین سے سفر کیا اور اُس میں دس گھنٹے گزارے۔ صدر جو بائیڈن کے اس خفیہ دورے کی اصل کہانی تو قسطوں میں سامنے آتی رہے گی اور اس پر روس سمیت مختلف ممالک کا ردّعمل بھی آتا رہے گا، لیکن پہلا اور مرکزی فوکس اس امر پر ہے کہ صدر نے یوکرین کے ساتھ یک جہتی کا جو وعدہ کیا تھا، اُسےحقیقت کا رُوپ دے دیا۔

روسی صدر کو یہ پیغام گیا کہ امریکا کس حد تک یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے کہ وہ اپنے صدر کی جان تک کی پروا نہیں کرتا اور یوکرین کےلیےہراقدام پرتیار ہے۔ جن صحافیوں نے امریکی صدر کے ساتھ طیارے میں سفر کیا، اُنہوں نے اس امر پر حیرانی کا اظہار کیا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طیارے کو ایئر فورس وَن نہیں کہا گیا۔ یہ روایت ہے کہ کسی بھی طیارے میں جب امریکی صدر سفر کرتا ہے، تو اُسے اِسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اب ایسا کیوں کیا گیا، یہ بھی دل چسپی کا باعث ہے۔

یوکرین جنگ دنیا بَھر کے لیے عالمی وبا، کورونا سے زیادہ تشویش ناک بنتی جارہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا شکار غریب ممالک کی معیشت ہے، جس نے کورونا کے بعد ذرا سا سنبھلنے کےلیے قدم اُٹھائے ہی تھے کہ صدر پیوٹن کے یوکرین پرحملے نے اُسےپھر سے گرا دیا۔ غریب اور پاکستان جیسے ترقّی پزیر ممالک کی کم زور معیشت اُنہیں نئے نئے چیلنجز سے دوچار کر رہی ہے، جب کہ روسی صدر کے پاس ایسا کوئی پلان بھی نہیں، جس سے وہ متاثرہ ممالک کی داد رَسی کرسکیں۔ 

زیادہ سے زیادہ روس اپنا تیل اور گیس تیس فی صد کم قیمت پر فروخت کر رہا ہے، مگراس کے لیے بھی بھارت اور چین کے علاوہ تمام ممالک کے لیے شرائط کے انبار ہیں، جنہیں پاکستان جیسے ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر کچھ چھوٹے ممالک کو ذرا سا فائدہ ملا بھی، تو اصل فائدہ روس ہی کو ہو رہا ہے، جو اس تجارت کےذریعے مغربی پابندیوں سے نکلنے میں کام یاب ہے کہ اُسے ڈالر مل رہے ہیں، جن کی اُسے اشد ضرورت ہے، وگرنہ وہ ڈیفالٹ کی حالت میں آجاتا، جب اس کا روبل انتہائی نیچے چلا گیا تھا۔ 

پھر روس سےمدد کےخواہش مندممالک کو مغربی پابندیوں کا بھی خوف ہے، مگر روس ایسا لاپروا ہے کہ اُس نے کسی فورم پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اُدھر مغرب خُود کو تو سہارا دینے میں بڑی حد تک کام یاب ہے، لیکن وہ بھی کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں کر سکا، جس سے باقی دنیا اس بحران سے نکل سکے۔ یہ تو طے ہے کہ جنگ کا پھیلائو روس، مغرب سمیت کسی کے لیے فائدہ مند نہیں اور یہ جس قدر جلد ختم ہوجائے، اُسی قدر جلد دنیا کے غریب عوام سُکھ کا سانس لیں گے۔ امریکا نے چین پر بھی الزام لگایا ہے کہ وہ روس کی مدد کے لیے اسلحہ سپلائی کرسکتا ہے، لیکن چین اسے مسترد کرتا ہے۔ گو کہ وہ روس کے ساتھ کھڑا ہے اور اس سے سستا تیل لے کر اُسے ڈالر دے رہا ہے، تاہم، وہ جنگ میں غیر جانب دار رہنے کے کوشش کرتا ہے۔ 

میونخ کی عالمی سیکیوریٹی کانفرنس میں شرکت کے موقعے پر چینی مندوب کا کہنا تھا کہ’’ چین، یوکرین کی جنگ میں نہ تو بےحِس و حرکت کھڑا ہے اور نہ وہ جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔‘‘یوکرین جنگ میں معیشت کے علاوہ ایک اہم عالمی معاملہ بھی داؤ پر لگا ہے۔ ایک سو سال قبل پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ کوئی مُلک کسی دوسرے مُلک پر قبضہ نہیں کرے گا، یعنی اُسے اپنی مملکت کا حصّہ نہیں بنائے گا۔ یہ اب عالمی نظام کا ایک قانون ہے۔ تاہم، روس نے اس کی دو بار خلاف ورزی کی ہے۔ 

پہلی بار اس نے کریمیا پر فوجی قبضہ کرکے اُسے روس کا حصّہ بنالیا اور اپنے آئین میں ترمیم کردی۔ دوسری بار یوکرین کےمشرقی سرحدی علاقوں میں یہی عمل دُہرایا۔ دونوں باراس کا استدلال یہ رہا کہ وہاں کی اکثریت روسی زبان بولنے والوں کی ہے۔ اگر لسانی بنیادوں پر ان قبضوں کو جائز قرار دیا جائے، تو یہ بین الاقوامی نظام کو تلپٹ کردے گا۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں، وسط ایشیا کےبیش تر مسلم ممالک میں روسی کلچراور زبان رائج ہے، کیوں کہ سوویت یونین نے اُنہیں عشروں سے غلام بنا رکھا تھا، تو کیا اسی فارمولے کے تحت وہ ان پر دوبارہ قبضہ کرکے اُنھیں روسی مملکت کا حصّہ بنا سکتا ہے۔

افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے بھی یہی جواز پیش کیا گیا تھا کہ وہ سوویت روس کا قریبی حلیف ہے۔ یہ سوال یوکرین جنگ میں روس کی حمایت یا مخالفت کا نہیں، بلکہ اس اصول کاہےکہ کیا چھوٹے ممالک کو آزاد اور خُود مختار رہنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ کیا یوکرین کو یہ آزادی نہیں ملنی چاہیے کہ وہ کس سے معاہدے کرتا ہے اور کس سے نہیں۔ جب پاکستان، امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شریک تھا، تو اُس وقت ایک موقعے پر سوویت یونین نے نقشے پر پاکستان کے گرد سُرخ دائرہ لگا دیا تھا۔ اگر امریکا اور دوسری نو آبادیاتی طاقتوں کے ایسے رویّوں کی مذمت کی جاتی ہے، تو پھر روس کو اس سے کیسے استثنا دیا جاسکتا ہے۔ 

یہ کوئی پیٹر دی گریٹ یا ملکہ کیتھرین کا دَور تو ہے نہیں کہ مُلک کے مُلک فتح کرتے چلے گئے اور فاتحِ اعظم کہلائے۔ اِس اصول کا تعلق اس امر سے بھی نہیں ہوسکتا کہ کس مُلک کے پاس کتنی بڑی فوج یا ایٹمی ہتھیار ہیں یا وہ کسی بڑے قدرتی وسیلے کا مالک ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یوکرین جہاں واقع ہے، وہاں چار بڑی طاقتیں ہیں۔ روس، یورپ، نیٹو اور چین۔ ان میں سے پہلی تین براہِ راست اس جنگ کی زد میں ہیں۔ تمام ماہرین اور ممالک اس امر پر متفّق ہیں کہ یہ ان ممالک اور طاقتوں کی ایک بڑی آزمائش ہےکہ وہ کیسے جلدازجلد اس جنگ کی دلدل سے خُود بھی نکلتے ہیں اور دنیا کو بھی اس کے معاشی اثرات سے نجات دِلاتے ہیں۔